| چاہیے اچھوں کو ، جتنا چاہیے |
| یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے |
| صحبتِ رنداں سے واجب ہے حَذر |
| جائے مے ، اپنے کو کھینچا چاہیے |
| چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل؟ |
| بارے اب اس سے بھی سمجھا چاہیے! |
| چاک مت کر جیب ، بے ایامِ گل |
| کُچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے |
| دوستی کا پردہ ہے بے گانگی |
| منہ چھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے |
| دشمنی نے میری ، کھویا غیر کو |
| کس قدر دشمن ہے ، دیکھا چاہیے |
| اپنی، رسوائی میں کیا چلتی ہے سعی |
| یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے |
| منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید |
| نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے |
| غافل ، اِن مہ طلعتوں کے واسطے |
| چاہنے والا بھی اچھا چاہیے |
| چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسدؔ |
| آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے |
بحر
|
رمل مسدس محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات