ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی
لے کے دل سر رشتۂ آزادگی
خود بخود کچھ ہم سے کنیانے لگا
اس قدر بگڑا کے سر کھانے لگا
میں کہا اے دل ہوائے دلبراں
بس کہ تیرے حق میں کہتی ہے زباں
پیچ میں ان کے نہ آنا زینہار
یہ نہیں ہیں گے کسو کے یار غار
گورے پنڈے پر نہ کر ان کے نظر
کھینچ لیتے ہیں یہ ڈورے ڈال کر
اب تو مل جائے گی تیری ان سے سانٹھ
لیکن آخر کو پڑے گی ایسی گانٹھ
سخت مشکل ہوگا سلجھانا تجھے
قہر ہے دل ان سے الجھانا تجھے
یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے
بھول مت اس پر اڑاتے ہیں تجھے
ایک دن تجھ کو لڑا دیں گے کہیں
مفت میں ناحق کٹا دیں گے کہیں
دل نے سن کر کانپ کر کھا پیچ و تاب
غوطے میں جا کر دیا کٹ کر جواب
رشتہ در گرد نم افگندہ دوست
می برد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست
بحر
رمل مسدس محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن

817

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں