حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے |
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچھا ہے |
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ |
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے |
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا |
ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے |
بے طلب دیں تو مزہ اس میں سوا ملتا ہے |
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے |
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق |
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے |
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض |
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے |
ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا |
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے |
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے |
کام اچھا ہے وہ جس کا کہ مآل اچھا ہے |
خضر سلطاں کو رکھے خالقِ اکبر سر سبز |
شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچھا ہے |
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن |
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے |
بحر
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات