نہ پوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ
لبوں پہ جان بھی آ جائے گی جواب کے ساتھ
مجھے بھی تاکہ تمنّا سے ہو نہ مایوسی
ملو رقیب سے لیکن ذرا حجاب کے ساتھ
نہ ہو بہ ہرزہ روادارِ سعیِ بے ہودہ
کہ دورِ عیش ہے مانا خیال و خواب کے ساتھ
بہ ہر نمط غمِ دل باعثِ مسرّت ہے
نموئے حیرتِ دل ہے ترے شباب کے ساتھ
لگاؤ اس کا ہے باعث قیامِ مستی کا
ہَوا کو لاگ بھی ہے کچھ مگر حباب کے ساتھ
ہزار حیف کہ اتنا نہیں کوئی غالبؔ
کہ جاگنے کو ملا دے وے آ کے خواب کے ساتھ
بحر
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن

0
463

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں