آبرو کیا خاک اُس گُل کی۔ کہ گلشن میں نہیں |
ہے گریباں ننگِ پیراہن جو دامن میں نہیں |
ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں |
رنگ ہو کر اڑ گیا، جو خوں کہ دامن میں نہیں |
ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب |
ذرّے اُس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں |
کیا کہوں تاریکیِ زندانِ غم اندھیر ہے |
پنبہ نورِ صبح سے کم جس کے روزن میں نہیں |
رونقِ ہستی ہے عشقِ خانہ ویراں ساز سے |
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں |
زخم سِلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن |
غیر سمجھا ہے کہ لذّت زخمِ سوزن میں نہیں |
بس کہ ہیں ہم* اک بہارِ ناز کے مارے ہوُے |
جلوۂ گُل کے سِوا گرد اپنے مدفن میں نہیں |
قطرہ قطرہ اک ہیولیٰ ہے نئے ناسور کا |
خُوں بھی ذوقِ درد سے، فارغ مرے تن میں نہیں |
لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری |
موجِ مے کی آج رگ، مینا کی گردن میں نہیں |
ہو فشارِ ضعف میں کیا نا توانی کی نمود؟ |
قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں |
تھی وطن میں شان کیا غالبؔ کہ ہو غربت میں قدر |
بے تکلّف، ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں |
بحر
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات