| کبھی نیکی بھی اس کے جی میں ، گر آ جائے ہے ، مجھ سے |
| جفائیں کر کے اپنی یاد ، شرما جائے ہے ، مجھ سے |
| خدایا ! جذبۂ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے ! |
| کہ جتنا کھینچتا ہوں ، اور کھنچتا جائے ہے ، مجھ سے |
| وہ بد خو ، اور میری داستانِ عشق طولانی |
| عبارت مختصر ، قاصد بھی گھبرا جائے ہے ، مجھ سے |
| ادھر وہ بدگمانی ہے ، ادھر یہ ناتوانی ہے |
| نہ پوچھا جائے ہے اس سے ، نہ بولا جائے ہے مجھ سے |
| سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی ! کیا قیامت ہے ! |
| کہ دامانِ خیالِ یار ، چھوٹا جائے ہے ، مجھ سے |
| تکلف بر طرف ، نظارگی میں بھی سہی ، لیکن |
| وہ دیکھا جائے ، کب یہ ظلم دیکھا جائے ہے ، مجھ سے |
| ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبردِ عشق میں زخمی |
| نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے ، نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے |
| قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالبؔ ! |
| وہ کافر ، جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے ، مجھ سے |
بحر
|
ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات