جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار |
صحرا، مگر، بہ تنگیِ چشمِ حُسود تھا |
آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست |
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا |
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ |
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا |
لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز |
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا |
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی |
میں، ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا |
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسدؔ |
سرگشتہِ خمارِ رسوم و قیود تھا |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات