درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا |
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا |
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں، کہ ہم |
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا |
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا |
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا |
کم نہیں نازشِ ہم نامئ چشمِ خوباں |
تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا |
سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا |
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا |
نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا |
کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا* |
ہر بُنِ مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خوں ناب |
حمزہ کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا |
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل |
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا |
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے |
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا |
بحر
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات