فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابندِ نے نہیں ہے
کیوں بوتے ہیں باغبان تونبے؟
گر باغ گدائے مے نہیں ہے
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے
پر تجھ سی کوئی شے نہیں ہے
ہاں ، کھائیو مت فریبِ ہستی!
ہر چند کہیں کہ "ہے" ، نہیں ہے
شادی سے گزر کہ ، غم نہ ہووے
اردی جو نہ ہو ، تو دے نہیں ہے
کیوں ردِ قدح کرے ہے زاہد !
مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے
ہستی ہے ، نہ کچھ عدم ہے ، غالبؔ!
آخر تو کیا ہے ، اے نہیں ہے؟
بحر
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرم اشتر محذوف
مفعولن فاعِلن فَعُولن

0
3772

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں