| دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے |
| کر گئی وابستۂ تن میری عریانی مجھے |
| بن گیا تیغِ نگاہِ یار کا سنگِ فساں |
| مرحبا میں! کیا مبارک ہے گراں جانی مجھے |
| کیوں نہ ہو بے التفاتی ، اس کی خاطر جمع ہے |
| جانتا ہے محوِ پرسش ہائے پنہانی مجھے |
| میرے غم خانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی |
| لِکھ دیا من جملۂ اسبابِ ویرانی ، مجھے |
| بدگماں ہوتا ہے وہ کافر ، نہ ہوتا ، کاشکے! |
| اس قدر ذوقِ نوائے مرغِ بستانی مجھے |
| وائے ! واں بھی شورِ محشر نے نہ دم لینے دیا |
| لے گیا تھا گور میں ذوقِ تن آسانی مجھے |
| وعدہ آنے کا وفا کیجے ، یہ کیا انداز ہے ؟ |
| تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے؟ |
| ہاں نشاطِ آمدِ فصلِ بہاری ، واہ واہ ! |
| پھر ہوا ہے تازہ سودائے غزل خوانی مجھے |
| دی مرے بھائی کو حق نے از سرِ نو زندگی |
| میرزا یوسف ہے ، غالبؔ ! یوسفِ ثانی مجھے |
بحر
|
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات