ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا |
بن گیا رقیب آخر تھا جو راز داں اپنا |
مے وہ کیوں بہت پیتے بزمِ غیر میں یا رب |
آج ہی ہوا منظور اُن کو امتحاں اپنا |
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے |
عرش سے اُدھر ہوتا، کاشکے مکاں اپنا |
دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے |
بارے آشنا نکلا، ان کا پاسباں، اپنا |
دردِ دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دکھلا دوں |
انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا |
گھستے گھستے مٹ جاتا، آپ نے عبث بدلا |
ننگِ سجدہ سے میرے، سنگِ آستاں اپنا |
تا کرے نہ غمازی، کر لیا ہے دشمن کو |
دوست کی شکایت میں ہم نے ہم زباں اپنا |
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے |
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا |
بحر
ہزج مثمن اشتر
فاعِلن مفاعیلن فاعِلن مفاعیلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات