یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا! |
اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا |
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا |
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا |
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا |
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا |
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو |
یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا |
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح |
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا |
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا |
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا |
غم اگر چہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے |
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا |
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟شب غم بری بلا ہے |
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا |
ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟ |
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا |
اسے کون دیکھ سکتا، کہ یگانہ ہے وہ یکتا |
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا |
یہ مسائلِ تصّوف یہ ترا بیان غالبؔ |
تجھے ہم ولی سمجھتے ،جو نہ بادہ خوار ہوتا |
بحر
رمل مثمن مشکول
فَعِلات فاعِلاتن فَعِلات فاعِلاتن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات