ایک جا حرفِ وفا لکّھا تھا، سو* بھی مٹ گیا |
ظاہرا کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے |
جی جلے ذوقِ فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں |
ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے |
آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا |
ہر کوئی در ماندگی میں نالے سے ناچار ہے |
ہے وہی بد مستیِ ہر ذرّہ کا خود عذر خواہ |
جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے |
مجھ سے مت کہہ "تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی" |
زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بیزار ہے |
آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے کہ تا |
تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرتِ دیدار ہے |
بحر
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات