ایک جا حرفِ وفا لکّھا تھا، سو* بھی مٹ گیا
ظاہرا کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے
جی جلے ذوقِ فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں
ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے
آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا
ہر کوئی در ماندگی میں نالے سے ناچار ہے
ہے وہی بد مستیِ ہر ذرّہ کا خود عذر خواہ
جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے
مجھ سے مت کہہ "تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی"
زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بیزار ہے
آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے کہ تا
تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرتِ دیدار ہے
بحر
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن

0
466

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں