زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک |
کیا مزا ہوتا ، اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک |
گردِ راہِ یار ہے سامانِ نازِ زخمِ دل |
ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمک |
مجھ کو ارزانی رہے ، تجھ کو مبارک ہو جیو |
نالۂ بُلبُل کا درد اور خندۂ گُل کا نمک |
شورِ جولاں تھا کنارِ بحر پر کس کا کہ آج |
گِردِ ساحل ہے بہ زخمِ موجۂ دریا نمک |
داد دیتا ہے مرے زخمِ جگر کی ، واہ واہ ! |
یاد کرتا ہے مجھے ، دیکھے ہے وہ جس جا نمک |
چھوڑ کر جانا تنِ مجروحِ عاشق حیف ہے |
دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگے ہیں اعضا نمک |
غیر کی منت نہ کھینچوں گا پئے توفیرِ درد |
زخم ، مثلِ خندۂ قاتل ہے سر تا پا نمک |
یاد ہیں غالبؔ ! تُجھے وہ دن کہ وجدِ ذوق میں |
زخم سے گرتا ، تو میں پلکوں سے چُنتا تھا نمک |
بحر
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات