| تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو |
| مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو |
| بچتے نہیں مواخذۂ روزِ حشر سے |
| قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو |
| کیا وہ بھی بے گنہ کش و حق نا شناس* ہیں |
| مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو |
| ابھرا ہوا نقاب میں ہے ان کے ایک تار |
| مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو |
| جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید |
| مسجد ہو، مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو |
| سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف، سب درست |
| لیکن خدا کرے وہ ترا جلوہ گاہ ہو |
| غالبؔ بھی گر نہ ہو تو کچھ ایسا ضرر نہیں |
| دنیا ہو یا رب اور مرا بادشاہ ہو |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات