| ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں |
| کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں |
| کب سے ہُوں۔ کیا بتاؤں جہانِ خراب میں |
| شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں |
| تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر |
| آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں |
| قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں |
| میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں |
| مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام |
| ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں |
| جو منکرِ وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے |
| کیوں بدگماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں |
| میں مضطرب ہُوں وصل میں خوفِ رقیب سے |
| ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں |
| میں اور حظِّ وصل خدا ساز بات ہے |
| جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں |
| ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے |
| ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں |
| لاکھوں لگاؤ ایک چُرانا نگاہ کا |
| لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں |
| وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے |
| جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں |
| وہ سحر مدعا طلبی میں کام نہ آئے |
| جس سِحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں |
| غالبؔ چھُٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی |
| پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں |
بحر
|
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات