سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں |
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں! |
یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں |
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں |
تھیں بنات النعشِ گردوں دن کو پردے میں نہاں |
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں |
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر |
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں |
سب رقیبوں سے ہوں ناخوش، پر زنانِ مصر سے |
ہے زلیخا خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہو گئیں |
جُوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق |
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں |
ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام |
قدرتِ حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گئیں |
نیند اُس کی ہے، دماغ اُس کا ہے، راتیں اُس کی ہیں |
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں* |
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھُل گیا |
بلبلیں سُن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں |
وہ نگاہیں کیوں ہُوئی جاتی ہیں یا رب دل کے پار؟ |
جو مری کوتاہئ قسمت سے مژگاں ہو گئیں |
بس کہ روکا میں نے اور سینے میں اُبھریں پَے بہ پَے |
میری آہیں بخیۂ چاکِ گریباں ہو گئیں |
واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب؟ |
یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں |
جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا |
سب لکیریں ہاتھ کی گویا، رگِ جاں ہو گئیں |
ہم موحّد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسُوم |
ملّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں |
رنج سے خُوگر ہُوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج |
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں |
یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہلِ جہاں |
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گہیں |
بحر
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات