ستائش گر ہے زاہد ، اس قدر جس باغِ رضواں کا |
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاقِ نسیاں کا |
بیاں کیا کیجئے بیدادِ کاوش ہائے مژگاں کا |
کہ ہر یک قطرہِ خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا |
نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع ، میرے نالوں کو |
لیا دانتوں میں جو تنکا ، ہوا ریشہ نَیَستاں کا |
دکھاؤں گا تماشہ ، دی اگر فرصت زمانے نے |
مِرا ہر داغِ دل ، اِک تخم ہے سروِ چراغاں کا |
کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے |
کرے جو پرتوِ خُورشید عالم شبنمستاں کا |
مری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی |
ہیولٰی برقِ خرمن کا ، ہے خونِ گرم دہقاں کا |
اُگا ہے گھر میں ہر سُو سبزہ ، ویرانی تماشہ کر |
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے، میرے درباں کا |
خموشی میں نہاں ، خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں |
چراغِ مُردہ ہوں ، میں بے زباں ، گورِ غریباں کا |
ہنوز اک "پرتوِ نقشِ خیالِ یار" باقی ہے |
دلِ افسردہ ، گویا، حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا |
نہیں معلوم ، کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا |
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا |
نظر میں ہے ہماری جادہِ راہِ فنا غالبؔ |
کہ یہ شیرازہ ہے عالَم کے اجزائے پریشاں کا |
بحر
ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات