حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمائش ہے
قد و گیسو میں ، قیس و کوہ کن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں ، وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے
کریں گے کوہ کن کے حوصلے کا امتحاں آخر
ہنوز اس خستہ کے نیروئے تن کی آزمائش ہے
نسیمِ مصر کو کیا پیرِ کنعاں کی ہوا خواہی!
اسے یوسف کی بوئے پیرہن کی آزمائش ہے
وہ آیا بزم میں ، دیکھو ، نہ کہیو پھر کہ غافل تھے
شکیب و صبرِ اہلِ انجمن کی آزمائش ہے
رہے دل ہی میں تیر ، اچھا ، جگر کے پار ہو ، بہتر
غرض شِستِ بُتِ ناوک فگن کی آزمائش ہے
نہیں کچھ سبحہ و زنار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
پڑا رہ ، اے دلِ وابستہ ! بے تابی سے کیا حاصل؟
مگر پھر تابِ زلفِ پر شکن کی آزمائش ہے
رگ و پے میں جب اترے زہرِ غم ، تب دیکھیے کیا ہو!
ابھی تو تلخیٔ کام و دہن کی آزمائش ہے
وہ آویں گے مرے گھر ، وعدہ کیسا ، دیکھنا ، غالبؔ!
نئے فتنوں میں اب چرخِ کہن کی آزمائش ہے
بحر
ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

620

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں