ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
میں دشتِ غم میں آہوئے صیّاد دیدہ ہوں
ہوں دردمند، جبر ہو یا اختیار ہو
گہ نالۂ کشیدہ، گہ اشکِ چکیدہ ہوں
نے سُبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے رابطہ
میں معرضِ مثال میں دستِ بریدہ ہوں
ہوں خاکسار پر نہ کسی سے ہو مجھ کو لاگ
نے دانۂ فتادہ ہوں ،نے دامِ چیدہ ہوں
جو چاہیے، نہیں وہ مری قدر و منزلت
میں یوسفِ بہ قیمتِ اوّل خریدہ ہوں
ہر گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ
ہوں میں کلامِ نُغز، ولے نا شنیدہ ہوں
اہلِ وَرَع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل
پر عاصیوں کے زمرے میں مَیں برگزیدہ ہوں
ہوں گرمئ نشاطِ تصوّر سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں
جاں لب پہ آئی تو بھی نہ شیریں ہوا دہن
از بسکہ تلخئِ غمِ ہجراں چشیدہ ہوں
ظاہر ہیں میری شکل سے افسوس کے نشاں
خارِ الم سے پشت بہ دنداں گزیدہ ہوں
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن

0
1820

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں