| تپش سے میری ، وقفِ کشمکش ، ہر تارِ بستر ہے |
| مرا سر رنجِ بالیں ہے ، مرا تن بارِ بستر ہے |
| سرشکِ سر بہ صحرا دادہ ، نورُ العینِ دامن ہے |
| دلِ بے دست و پا افتادہ بر خور دارِ بستر ہے |
| خوشا اقبالِ رنجوری ! عیادت کو تم آئے ہو |
| فروغِ شمع بالیں ، طالعِ بیدارِ بستر ہے |
| بہ طوفاں گاہِ جوشِ اضطرابِ شامِ تنہائی |
| شعاعِ آفتابِ صبحِ محشر تارِ بستر ہے |
| ابھی آتی ہے بو ، بالش سے ، اس کی زلفِ مشکیں کی |
| ہماری دید کو ، خوابِ زلیخا ، عارِ بستر ہے |
| کہوں کیا ، دل کی کیا حالت ہے ہجرِ یار میں ، غالبؔ! |
| کہ بے تابی سے ہر یک تارِ بستر ، خارِ بستر ہے |
بحر
|
ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات