گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا |
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا |
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب! |
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا |
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی |
دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا |
غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ باغ نہ دو |
مجھے دماغ نہیں خندہ* ہائے بے جا کا |
ہنوز محرمئ حسن کو ترستا ہوں |
کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا |
دل اس کو، پہلے ہی ناز و ادا سے، دے بیٹھے |
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا |
نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدارِ حسرتِ دل ہے |
مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا |
فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اُس کو یاد اسدؔ |
جفا میں اس کی ہے انداز کارفرما کا |
بحر
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
||
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات