| کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں |
| ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں |
| آج ہم اپنی پریشانئ خاطر ان سے |
| کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھئے کیا کہتے ہیں |
| اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو |
| جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں |
| دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے |
| اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں |
| ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود |
| قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں |
| پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے |
| خارِ رہ کو ترے ہم مہرِ گیا کہتے ہیں |
| اک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائے گا کیا |
| آگ مطلوب ہے ہم کو ،جو ہَوا کہتے ہیں |
| دیکھیے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ |
| اُس کی ہر بات پہ ہم نامِ خدا‘ کہتے ہیں |
| وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید |
| مر گیا غالبِؔ آشفتہ نوا، کہتے ہیں |
بحر
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات