مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں |
سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں |
مگر غبار ہُوے پر ہَوا اُڑا لے جائے |
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں |
یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟ |
کہ غیرِ جلوۂ گُل رہ گزر میں خاک نہیں |
بھلا اُسے نہ سہی، کچھ مجھی کو رحم آتا |
اثر مرے نفسِ بے اثر میں خاک نہیں |
خیالِ جلوۂ گُل سے خراب ہیں میکش |
شراب خانے کے دیوار و در میں خاک نہیں |
ہُوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ |
سوائے حسرتِ تعمیر۔ گھر میں خاک نہیں |
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ |
کھُلا، کہ فائدہ عرضِ ہُنر میں خاک نہیں |
بحر
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
||
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات