ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں |
اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں |
کس منہ سے شکْر کیجئے اس لطف خاص کا |
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں |
ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز |
نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں |
بوسہ نہیں، نہ دیجے دشنام ہی سہی |
آخر زباں تو رکھتے ہو تم، گر دہاں نہیں |
ہر چند جاں گدازئِ قہر و عتاب ہے |
ہر چند پشت گرمئِ تاب و تواں نہیں |
جاں مطربِ ترانہ ہَل مِن مَزِید ہے |
لب پر دہ سنجِ زمزمہِ الاماں نہیں |
خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم |
دل میں چھُری چبھو مژہ گر خوں چکاں نہیں |
ہے ننگِ سینہ دل اگر آتش کدہ نہ ہو |
ہے عارِ دل نفس اگر آذر فشاں نہیں |
نقصاں نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خراب |
سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں |
کہتے ہو " کیا لکھا ہے تری سرنوشت میں" |
گویا جبیں پہ سجدۂ بت کا نشاں نہیں |
پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی |
رُوح القُدُس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں |
جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی |
غالبؔ کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاں نہیں |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات