گر نہ ‘اندوہِ شبِ فرقت ‘بیاں ہو جائے گا |
بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہو جائے گا |
زہرہ گر ایسا ہی شامِ ہجر میں ہوتا ہے آب |
پر توِ مہتاب سیلِ خانماں ہو جائے گا |
لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ، مگر |
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا |
دل کو ہم صرفِ وفا سمجھے تھے، کیا معلوم تھا |
یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہو جائے گا |
سب کے دل میں ہے جگہ تیری، جو تو راضی ہوا |
مجھ پہ گویا، اک زمانہ مہرباں ہو جائے گا |
گر نگاہِ گرم فرماتی رہی تعلیمِ ضبط |
شعلہ خس میں، جیسے خوں رگ میں، نہاں ہو جائے گا |
باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر |
ہر گلِ تر ایک "چشمِ خوں فشاں" ہو جائے گا |
واۓ گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو |
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہو جائے گا |
فائدہ کیا؟ سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ |
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہو جائے گا |
بحر
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات