بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
غلامِ ساقیٔ کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے
تمھاری طرز و روش جانتے ہیں ہم، کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے
کٹے تو شب کہیں کاٹے تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ وہ زلفِ خم بہ خم کیا ہے
لکھا کرے کوئی احکامِ طالعِ مولود
کسے خبر ہے کہ واں جنبشِ قلم کیا ہے؟
نہ حشر و نشر کا قائل نہ کیش و ملت کا
خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے؟
وہ داد و دید گراں مایہ شرط ہے ہمدم
وگرنہ مہرِ سلیمان و جامِ جم کیا ہے
سخن میں خامۂ غالبؔ کی آتش افشانی
یقیں ہے ہم کو بھی، لیکن اب اس میں دم کیا ہے
بحر
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن

0
651

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں