نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا |
ڈُبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا |
ہُوا جب غم سے یوں بے حِس تو غم کیا سر کے کٹنے کا |
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا |
ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا، پر یاد آتا ہے |
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا |
بحر
ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات