آج کل پابندی لگی ہے سلام اور آدابوں پر |
یہ عَدُو تو یارو جھنجلا رہا ہے فتح یابوں پر |
میرے اللہ تیری محبت کے متوالوں کی ہو خیر |
مفتیوں اور مولویوں کا قبضہ ہے اب محرابوں پر |
ظالموں کے ظلم و ستم پر سبھی عاشق کہتے ہیں |
لگتا ہے ہم کو جیسے شبنم گرے ہے گُلابوں پر |
زندگی کو ہنستے روتے میں نے جیا ہے |
وقت سے کوئی نہ گلہ میں نے کیا ہے |
زیست ہوئی یہ تمام کیسے نہ پوچھو |
عاشقی میں خوں جگر کا میں نے پیا ہے |
اس حسیں سے ہی لپٹنے کی تَمَنّا میں |
ہر مصیبت پر ہونٹوں کو میں نے سیا ہے |
دنیا سے نرالا ہے یہ جلسہ ہمارا |
ہاں فضل خدا کا ہے یہ جلسہ ہمارا |
دوری کو مٹاتا ہے یہ جلسہ ہمارا |
روحوں کو ملاتا ہے یہ جلسہ ہمارا |
روحوں کو ہاں سرشار جو کرنے والی ہے |
وہ جوت جگاتا ہے یہ جلسہ ہمارا |
ہر تھاں ہی جہالت دے کھوبے نیں |
چوہاں پاسے ہی دسدے ٹوبے نیں |
گجیاں چوٹاں ادھ مئوا کر دتا |
تے پھلاں نے وی کنڈے چوبھے نیں |
نفرتاں دے دریاواں وچ ملاں |
بندے وٹیاں وانگ ہی ڈوبے نیں |
لب جاں بَخش اب جاں بلب ہو گئے ہیں |
ارماں سب گہری نیند سو گئے ہیں |
سفرِ زیست میں مرے کیا کیا |
ہم نوا یار دوست کھو گئے ہیں |
مجھے ان سے گلہ نہیں ہے کوئی |
اپنے تھے اب جو غیر ہو گئے ہیں |
لوگوں کی بھیڑ میں تنہائی بہت |
سجن اب کوئی نہیں بھائی بہت |
ہے توانا ئی علم میں بھی مگر |
ہے چا ہِ جَہل کی گہرائی بہت |
مرے پیارے خدا ان کو تو دھو دے |
جن دلوں پر جمی ہے کاءی بہت |