Circle Image

Rana Mohammad Hassan Khan

@12345678786

پھولوں جیسی لگے صورت اس کی
دے سکوں دل کو زیارت اس کی

0
6
عمل نہ ہو سکے جس پر حسن روایت کیسی
جہاں امام نہ ہو تو وہاں جماعت کیسی
ہمیں نہ شیخ سنائو قصیدے تم الفت کے
جو کوکھ میں نفرت کی پلے محبت کیسی
بڑھائو منصفو قانون کی سبھی دکانیں
جہاں پہ بکتا ہو انصاف وہ عدالت کیسی

0
6
ہے پابندی سلاموں اور ادابوں پر
لگا پہرا سوالوں پر جوابوں پر
محبت کے تو متوالے منائیں خیر
اساس دین ملاں ہے عتابوں پر
لہو عشاق کا ٹپکے ہے دھرتی پر
کہ شبنم گر رہی ہو جوں گلابوں پر

0
8
میری یہ پریشاں حیات کر دی
بد لہجہ میں اس نے جو بات کر دی

0
11
جب لکھے گا مورخ کہانی ہماری
لوگ ڈھونڈیں گے تب نشانی ہماری

7
ہم تمہارے ہیں تمہارے ہی رہیں گے
ہم ترے واسطے ہر ظلم سہیں گے
بنوں کے باسیوں کا ڈر نہیں ہم کو
کچھ بھی دشمن کرے تجھ ہی سے ڈریں گے

0
12
ایاز میرا دوست اور علی خاں میرا یار ہے
ہاں دونوں ہی سے مجھ کو بیحد و حساب پیار ہے
ٰٰیہ دونوں ہی ہیں پیارے بڑھ کر ایک دوسرے سے جی
جو اک قرار دل تو دوسرا گلے کا ہار ہے
مرا وجود ان نے ہی تو کیا ہے اب مکمل
ہاں ایک چھت ہے اور اس کی دوسرا دیوار ہے

0
8
عزّت و توقیر مہنگی ہو گئی
ذلّت و تحقیر سستی ہو گئی
زندگی کی اب وطن میں میرے بھی
قدر و قیمت یارو مٹی ہو گئی
جو چھپی تھی سات پردوں میں کبھی
اب وہ وحشت بھی ہاں ننگی ہو گئی

0
8
پہلے دل کو پیار کے قابل کیجیے
پھر کسی اور کے حوالے دل کیجیے
یار کی چاہت میں دل جلا دیجیے
اس میں پھر خونِ جگر شامل کیجیے

0
9
لو چاہت کا میری یہ حاصل ہے نکلا
کہ نفرت میں میری وہ کامل ہے نکلا
بھروسا مجھے جس کی یاری پہ تھا جی
مرے دشمنوں میں وہ شامل ہے نکلا
جسے میں نے سمجھا کہ ہے پارسا یہ
وہ بہروپ زاہد میں قاتل ہے نکلا

0
13
تمہی شیطان خود کو دیکھا رہے ہو
منافق تم بنائے ہی جا رہے ہو
جماعت جب سے قائم ہو چکی ہے تم
ذلیل و خوار ہوتے ہی جا رہے ہو
نہ گھر کے تم رہے اور ناں گھاٹ کے ہی
ہو مردہ کیوں بتا تم زندہ رہے ہو

0
18
تمہی شیطان خود کو دیکھا رہے ہو
منافق تم بنائے ہی جا رہے ہو

0
9
لو چاہت کا میری یہ حاصل ہے نکلا
کہ نفرت میں میری وہ کامل ہے نکلا
بھروسا مجھے جس کی یاری پہ تھا جی
مرے دشمنوں میں وہ شامل ہے نکلا
جو سمتِ سفر کا تعیّن ہی کر دے
کہاں دیس میں ایسا عاقل ہے نکلا

0
11
آج کل پابندی لگی ہے سلام اور آدابوں پر
یہ عَدُو تو یارو جھنجلا رہا ہے فتح یابوں پر
میرے اللہ تیری محبت کے متوالوں کی ہو خیر
مفتیوں اور مولویوں کا قبضہ ہے اب محرابوں پر
ظالموں کے ظلم و ستم پر سبھی عاشق کہتے ہیں
لگتا ہے ہم کو جیسے شبنم گرے ہے گُلابوں پر

14
جو ظلم کرتے ہیں اپنی عمر کم کرتے ہیں
مظلوم ناحق ہی واویلا و غم کرتے ہیں
ہاں بے وفائی سے تیری تھک گئے ہم تو اب
اب تم وفا کر لو بیوفائی ہم کرتے ہیں

0
29
زیست بنے گی تماشا یہ تو سوچا نہ تھا
کوئی نہ دے گا دلاسا یہ تو سوچا نہ تھا
ہاں کبھی سب کی نگاہوں کا تھے مرکز ہمی
اپنے بنیں گے بیگانہ یہ تو سوچا نہ تھا
دل میں بسایا جنہیں ہم نے محبت کے ساتھ
ہم کو کہیں گے وہ برا یہ تو سوچا نہ تھا

0
23
سب بھول کر تجھ کو منانے آئے ہیں
دل صاف اپنا ہم دکھانے آئے ہیں
تجھ سے گلہ شکوہ نہیں ہے کوئی بھی
یہ سچ ہے جس کو ہم بتانے آئے ہیں
دنیا نے کانٹے جتنے بچھا رکھے ہیں
وہ تیرے رستہ سے ہٹانے آئے ہیں

0
12
ہائے تُو نے یہ کیا کر دیا ہے
دل کتنوں کا غم سے بھر دیا ہے
اک پھول تھا تیری دسترس میں
اس کو بھی خاروں سے بھر دیا ہے
گلے سے کیوں ناں تو نے لگایا
دل میرا زخمی کیوں کر دیا ہے

0
19
عزت اب مہنگی ہو گئی ہے
ذلت اب سستی ہو گئی ہے
جاں کی تو دیس میں مرے بھی
قیمت اب مٹی ہو گئی ہے
جو چھپی سات پردوں میں تھی
وحشت اب ننگی ہو گئی ہے

0
27
میں تجھے گلے لگانا چاہتا تھا
حال دل تجھ کو سنانا چاہتا تھا
تم سمندر پار بھی آ ہی نہ سکے
وقت تب شاید ستانا چاہتا تھا
کیسے ملتے ہو مجھے سوتے ہوئے تم
خواب وہ تجھ کو سنانا چاہتا تھا

23
زندگی کو ہنستے روتے میں نے جیا ہے
وقت سے کوئی نہ گلہ میں نے کیا ہے
زیست ہوئی یہ تمام کیسے نہ پوچھو
عاشقی میں خوں جگر کا میں نے پیا ہے
آرزو میں اس حسیں سے ملنے کی یارو
مشکلوں میں بھی لبوں کو میں نے سیا ہے

0
19
تم تو جا کر رونق محفل ہو گئے
دل سے میرے غم کے سائے نہ گئے
ظالم تو عبث ہی شور حق کرتے ہیں
وہ سچے کہاں جو کہ ستائے نہ گئے

0
17
زندگی کو ہنستے روتے میں نے جیا ہے
وقت سے کوئی نہ گلہ میں نے کیا ہے
زیست ہوئی یہ تمام کیسے نہ پوچھو
عاشقی میں خوں جگر کا میں نے پیا ہے
اس حسیں سے ہی لپٹنے کی تَمَنّا میں
ہر مصیبت پر ہونٹوں کو میں نے سیا ہے

0
27
دنیا سے نرالا ہے یہ جلسہ ہمارا
ہاں فضل خدا کا ہے یہ جلسہ ہمارا
دوری کو مٹاتا ہے یہ جلسہ ہمارا
روحوں کو ملاتا ہے یہ جلسہ ہمارا
روحوں کو ہاں سرشار جو کرنے والی ہے
وہ جوت جگاتا ہے یہ جلسہ ہمارا

0
19
شب بھر رو تم لیئے دن ہنس کے گزار لے
اب بھول جا خزاں کو لطفِ بہار لے
دکھ درد کا مداوا رونا نہیں ہو تا
انسانوں سے تو کر کے پیار ان کا پیار لے

0
27
تیرے اشاروں پر جو چل رہے ہیں
وہ ہجر کے شعلوں میں جل رہے ہیں
گھائل تو نے کیا تھا جنہیں زباں سے
وہ تیرے دشمن اب سنبھل رہے ہیں
سن آسماں کے جوں بدلتے ہیں رنگ
اطوار تیرے بھی بدل رہے ہیں

0
27
ہم وطنو کیسے ملنے وہ دلدار آئے
جائو جدھر بھی رستے میں دربار آئے
قسمت یہ بدلے گی سمجھتے ہیں لوگ
جب بھی کبھی کوئی نئی سرکار آئے
اسلام رہ جاتا ہے پیچھے در پیچھے
جب بیچ اس کے جبہ و دستار آئے

0
27
مولویوں کو دیکھ کر ہاں ڈر لگتا ہے
جب خیر یہ بولیں تب بھی شر لگتا ہے
یہ سوانگ رچانے میں بھی ماہر ہیں
ہر اک ملا ہی بندر لگتا ہے

0
1
21
اپنے وہ خول سے جو باہر نکلے
سب کے سب بے ضمیر جابر نکلے
ہم جن کو زاہد سمجھے تھے وہ بھی
بے حد سوچ و ظرف کے لاغر نکلے
مشکل میں یاروں کی زباں سے اکثر
جب نکلے بغض کے ہی لشکر نکلے

0
27
ہماری تو جان ہیں یہ علیشا علی زرین
یہ تینوں ہی ایک دوسرے سے ہیں بڑے حسین
یہ دنیا مہک اٹھے گی سنو ان کی خوشبو سے
بنائیں گے کل فلک نیا اور ہاں نئی زمین

0
10
سب بھول کر تجھ کو منانے آئے ہیں
دل صاف اپنا ہم دکھانے آئے ہیں

0
16
ترے تصور میں جب کبھی کھو جاتا ہوں
سکون دل بے حد و حساب پاتا ہوں
گو مہرباں تو رہتا ہے دور مجھ سے مگر
میں گیت تیرے ہی شب و روز گاتا ہوں

0
26
تم کتنے اچھے ہو تم کتنے پیارے ہو
تم سب ھی میرے پیارو روشن ستارے ہو

0
19
اب قالب میں عجب بشر ڈھل رہے ہیں
اب تو روبوٹ ہر جا ہی چل رہے ہیں
گوروں کی ہاں خوبیویوں کو دیکھ ہی کر
مولویوں کے دل و جاں جل رہے ہیں

0
23
دکھی دل ہم سے دکھایا نہیں جاتا
درد سینوں پہ سجایا نہیں جاتا
جیتے جی مر گئے جو ناصح اٹھیں کیوں
مرنے والوں کو جگایا نہیں جاتا

0
1
28
کیا مل گیا تجھے اک جلتا دیا بجھا کر
کیا اب سکوں میں ہو تم دل کو مرے جلا کر

0
26
یہ موت بھی کیا شے ہے
خدا کا یہ بھی رحم ہے
یہ زیست بھر کی ہر تھکان
اتار دے ہے لمحے میں

0
22
مجھے کوئی بھی پیارا نہیں تیرے سوا
کوئی بھی دل کو بھایا نہیں تیرے سوا

0
33
لوگوں کی بھیڑ میں تنہائی بہت
سجن اب کوئی نہیں بھائی بہت
ہے توانائی علم میں بھی مگر
اب جہالت کی ہے گہرائی بہت

0
27
میچ سحری تلک کھیلیں گے
روزہ رکھ کر ہی ہم سوئیں گے
روشنی کے لیے ہم تو جی
بجلی چوری کی جلائیں گے

0
34
جوں جوں ہم ہوش کھو رہے ہیں
توں توں سب دور ہو رہے ہیں
لوگوں کا یہ عجب چلن ہے
اپنوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں
جو متوالے ہیں دور نو کے
زہریلے خار بو رہے ہیں

0
25
سن اے اوروں کو جلانے والے
تیرا بھی جل جانا ہے مقدر
جسموں کا سب ہی کے اس جہاں میں
مٹی میں ڈھل جانا ہے مقدر

0
26
انہیں ہم بیٹھ کر بس تکتے رہتے ہیں
موبائل کو ہی وہ مس کرتے رہتے ہیں
موبائل فون میں کیسا دجل ہے کہ
معانی قرب و دوری پھرتے رہتے ہیں
موبائل فون کی ہی مہربانی ہے
کہ تنہائی سے بچے لڑتے رہتے ہیں

0
19
جو مرا یہ بدن اس سے چھو جائے گا
تو نجانے کیا سے کیا ہو جائے گا

0
26
مُلاّ جی نے داڑھی خوب چھوڑ رکھی ہے
خباثتوں کی بھی ٹانگ توڑ رکھی ہے
مُلاّ تو جب بھی بولے ہے جھوٹ بولے ہے بس
یہی تو قدرت نے اس میں کھوڑ رکھی ہے

0
32
مُلاّ جی کیا جانے صاحب حلوہ کیا ہے
ہاں اس کو سوائے کھانے کے آتا کیا ہے
عربی زباں کا قرآں نہیں ہے ہر لفظ ملا
یہ برانڈ شالک جانے نہ تو کھاتا کیا ہے

0
45
جو سن لو ماجرا دل کا مہربانی ہو گی
ہنس دو تو بات کرنے میں کچھ روانی ہو گی

0
36
جھوٹ اور سچائی میں رشتہ کیا ہے
اب سوا اس کے اور جھگڑا کیا ہے
جو شرافت سے ناں تعلق ہو جس کا
اس کا عزت غَیَرت سے پھر ناطہ کَیا ہے
زیر دکھ کوئی قوم آتی ہے جب تو
ہر کوئی کہتا ہے میں نے کیا کیا ہے

0
27
مولویوں سے مل ملا رہے ہیں
وہ رنجشیں سب بھلا رہے ہیں
ڈیزل مومن یہودی مسلم
اک دوجے کو بنا رہے ہیں

0
34
میرے آگے بیٹھ کے
کرتے تھے کبھی کبھی
اپنی شاعری بیاں
یاد ہے یہ تجھ کو کیا
یا چکے ہو سب بھلا
پھر تمہی یہ کہتے تھے

0
26
روتوں کو سینے سے لگاتے نہیں
لوگ رشتوں کو بھی نبھاتے نہیں

0
25
عاشقی روگ اس کا تو پرانا ہے
ہاں تَعارُف یہ میرا غائبانہ ہے
یہ عَدُو کہہ دیا کرتے ہیں مجھ کو بھی
اچھا دل کا طبیعت شاعرانہ ہے
دوست کے بھیس میں دشمن بھی پلتے ہیں
دیکھو یہ آ گیا کیسا زمانہ ہے

0
40
ہے برا وہ ہی جو دل کا کھرا نہیں ہوتا
کوئی زمانہ اچھا یا برا نہیں ہوتا

0
36
یاد جب بھی تری ستاتی ہے
زخم دل پر بہار آتی ہے
محفلوں کی اے جان تجھ کو کبھی
کیا مری یاد بھی رلاتی ہے

0
32
سنو بُوڑھے کو تھوڑا وقت بھی دَرکار ہوتا ہے
وہ بِیماری و تَنہائی سے جب دوچار ہوتا ہے
سنو ان کے لیے جلدی ہی لَوٹ آیا کرو گھر کو
کہ بُوڑھوں کی شِفا بچوں کا ہی دیدار ہوتا ہے
اُٹھا کر جو گھماتا تھا تجھے اپنی جوانی میں
اسے چلنے میں اب بازو ترا درکار ہوتا ہے

0
40
ہاتھ دشمن سے ملا لے تو وہ چاہت کیسی
رشتہ ہی ٹوٹ گیا ہو تو وضاحت کیسی
بے وفا دوستوں سے اللہ بچا کے رکھے
بدلے پل بھر میں جو رنگ اس سے رفاقت کیسی
مار ڈالے جو کہ بھوکوں وہ شرافت نہیں ہے
وقت پر کام نہ آئے جو شرافت کیسی

0
29
کیوں پاس وفا نہیں ہے تجھ کو
کیوں خوف خدا نہیں ہے تجھ کو
کافر ،مسلم کو کہنا تیرا
کیوں لگتا بُرا نہیں ہے تجھ کو

0
26
مجھے اب اپنے بھی اپنے نہیں لگتے
مجھے اب سچے بھی سچے نہیں لگتے
چلی ہے دانشوری کی ہوا ایسی
مجھے اب بچے بھی بچے نہیں لگتے
سنو دجال بھی اب گل کھلائے گا
ارادے اس کے بھی کچے نہیں لگتے

0
33
تو انجام بھی یاد رکھنا
ہاں مجھ کو ڈبونے سے پہلے
دعا کر لیا کر تو بھی اب
حسن شب میں سونے سے پہلے

0
29
یہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے
لہو سے ہر کوئی ہاتھ اپنے کیوں دھو رہا ہے
چار سو علم کی جب روشنی ہے تو جناب
دیس میں میرے ہی ہر شخص کیوں سو رہا ہے
خار کو پھل لگا کرتے نہیں ہیں اے بشر
راہ میں بچوں کی کانٹے تو کیوں بو رہا ہے

0
42
جس کی کوئی خطا نہیں ہوتی
اس سے عزت خفا نہیں ہوتی
ایسی یاری کا ٹوٹنا بہتر
جس میں بوئے وفا نہیں ہوتی
شیطاں کو جو بھی خوش رکھے اس کی
کبھی جنت جزا نہیں ہوتی

0
34
آؤ کہ محبت کے چراغوں کو جلائیں
پَت جھڑ بھی بہاروں کی ہی صورت میں منائیں
آؤ کہ غمِ زیست ہواؤں میں اُڑائیں
ماضی کے جو قِصّے ہیں انہیں آگ لگائیں
آؤ کہ نئے سال میں کاٹیں جو ہمارے
کمزور سے سینوں میں پلی ہیں انائیں

0
32
آرام و خوشی سب کا مقدر نہیں ہوتا
جی چاہتا ہے جو کیوں میسر نہیں ہوتا
دیکھا تھا مری آنکھوں نے جو اک بستی میں
نظروں سے گم بھوک کا منظر نہیں ہوتا
مرنے کے ہی بعد ملے گا جو جنت میں
زندوں کو اس کا گماں اکثر نہیں ہوتا

0
47
جگ میں تو رہنے کو اک زندہ جہاں بنا
انصاف کو شعار اور دل مسلماں بنا
میسر گدازئ محمل جو نہیں تو کیا
ذلت پہ ناں ٹھہر غیرت کا مکاں بنا

0
45
کھا رہا ہے یہ دکھ تیرے جانے کے بعد
کھو دیا ہے میں نے تجھ کو پانے کے بعد
کر گیا میرے دل کا گلستاں اداس
وہ جو چلا گیا گل کھلانے کے بعد
ہو مبارک نئی زندگی کا سرور
ملی تجھ کو رہائی زمانے کے بعد

0
38
بتا میں جائوں کہاں تو ملے جہاں
بھٹک رہا ہوں کب سے یہاں وہاں
بھو لے نہیں یہ دل لمحے وصل کے
یہ جاں لے گا تیری یاد کا دھواں

38
اپنے جب دل کو توڑ دیتے ہیں
دوست بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں

0
32
ہر تھاں ہی جہالت دے کھوبے نیں
چوہاں پاسے ہی دسدے ٹوبے نیں
گجیاں چوٹاں ادھ مئوا کر دتا
تے پھلاں نے وی کنڈے چوبھے نیں
نفرتاں دے دریاواں وچ ملاں
بندے وٹیاں وانگ ہی ڈوبے نیں

0
31
سنو عشق تو کوئی پیشہ نہیں ہے
وہ کیا عشق گر ساتھ تیشہ نہیں ہے
جھلک خون دے آنسوؤں میں تو سمجھو
کہ ہے عشق صافی تماشہ نہیں ہے
بظاہر نظر آئے تنہا بھی عاشق
اکیلا کبھی بھی وہ حاشا نہیں ہے

0
28
ہر تھاں ہی جہالت دے کھوبے نیں
چوہاں پاسے ہی دسدے ٹوبے نیں
گجیاں چوٹاں ادھ مئوا کر دتا
تے پھلاں نے وی کنڈے چوبھے نیں
نفرتاں دے دریاواں وچ ملاں
بندے وٹیاں وانگ ہی ڈوبے نیں

0
33
ماں کی گود اور باپ کا سینہ چاہتا ہوں
پھر بچپن کا دور سہانا چاہتا ہوں
ماں دیتی ہے لوریاں گویا سوچ کے یہ
راحت کی کچھ نیند میں سونا چاہتا ہوں
پتلی تھک کر چور سی ٹانگیں باپ سے ہی
دیوانے کا دور لڑکپن چاہتا ہوں

0
21
ہاتھ دشمن سے ملا لے تو وہ چاہت کیسی
رشتہ ہی ٹوٹ گیا ہو تو وضاحت کیسی
بے وفا دوستوں سے اللہ بچا کے رکھے
بدلے پل بھر میں جو رنگ اس سے رفاقت کیسی
مار ڈالے جو کہ بھوکوں وہ شرافت نہیں ہے
وقت پر کام نہ آئے وہ شرافت کیسی

0
35
ساقیا تجھ کو جو اب ہے ستانا آ گیا
بِن پیے ہم کو بھی ہے ڈگمگانا آ گیا
بن کہے کچھ لوگ رستہ بدل لیتے ہیں اب
یہ بہت برا ہے جو اب زمانہ آ گیا
پیارے جب سے تم کو جلنا جلانا آ گیا
خود سے مجھ کو روٹھنا اور منانا آ گیا

0
35
میری سب اچھائیوں کو جلا ڈالا
دھوکا بازوں نے کینہ توز بنا ڈالا

0
32
لب جاں بَخش اب جاں بلب ہو گئے ہیں
ارماں سب گہری نیند سو گئے ہیں
سفرِ زیست میں مرے کیا کیا
ہم نوا یار دوست کھو گئے ہیں
مجھے ان سے گلہ نہیں ہے کوئی
اپنے تھے اب جو غیر ہو گئے ہیں

0
39
اے نام نہاد مولوی!
جو نشہ چڑھا ہے اتر جائے گا
غفلتوں کا دور گزر جائے گا
تجھ سے منافق کی پکڑ ہو گی جب
تو ہی بتا تب تو کدھر جائے گا
جھوٹا ہی کہلائے گا دنیا میں وہ

38
شہرِ دلبراں میں جو عزت نہیں تو کچھ بھی نہیں
جو دلوں میں پیار کی حدت نہیں تو کچھ بھی نہیں
ہاں بہت سی لذتیں آسائشوں میں بھی ہیں مگر
جب عبادتوں میں ہی لذت نہیں تو کچھ بھی نہیں
اوروں کے گناہوں کا پرچار کرنے والو سنو
معصیت پر اپنی ندامت نہیں تو کچھ بھی نہیں

0
31
کب تلک تم دل جلائے جائو گے
کب تلک آنسو بہائے جائو گے
ہو چکی اب غم کی شب تمام ہے
کب تلک روئے رلائے جائو گے

0
45
لوکو جنیاں گالاں کڈو گے
کل انیاں اڈیاں رگڑو گے
سچ تلواراں توں ڈردا نیئں
اے ودے گا جناں اینوں وڈو گے

0
39
زندگی میں مقدر کا کام نہیں
لوگوں میں اب تدبر کا نام نہیں
یونہی ہو جاتی ہے زندگی یہ تمام
صبح ہیں سانس تو بھروسہ شام نہیں

0
39
مُلاّ نے داڑھی بھی خوب چھوڑ رکھی ہے
خباثتوں کی بھی ٹانگ توڑ رکھی ہے
مُلاّ تو جب بھی بولے ہے جھوٹ بولے ہے جی
یہی تو قدرت نے اس میں کھوڑ رکھی ہے

0
42
جس کو چاہو وہ بھی چاہے یہ ضروری تو نہیں
یار روٹھا ہوا مانے یہ ضروری تو نہیں

51
اُجلے چہرے، من ہیں کالے
قوم نے ہیں کچھ سانپ جو پالے
حق عورت کو وہ کیا دیں گے
ملّا کے دیں پر چلنے والے
بد باطن کیوں چھپ پاٸیں گے
سب ہیں قوم کے دیکھے بھالے

48
وہ جس سے عشق زوالی کبھی نہیں ہوتا
دل اس کی یاد سے خالی کبھی نہیں ہوتا
وہ گلستان کہ کھلتے نہیں گلاب جہاں
وہاں پہ ایک بھی مالی کبھی نہیں ہوتا
غم و الم کے اندھیروں میں کوئی بھی یارو
سوائے رحماں کے والی کبھی نہیں ہو تا

0
34
مجھ کو لوگوں نے مارا نہیں
میری قاتل محبت ہی ہے
سب غموں کا سبب بھی حسن
سن لو ظالم یہ چاہت ہی ہے

0
28
میری قاتل محبت ہی ہے
غم کی بنیاد چاہت ہی ہے

0
39
ان کے چہروں کو ہم نے دل میں سجا رکھا ہے
جن کو اپنوں نے کہیں دور چھپا رکھا ہے
راز محبت جاننے والے یہ جانتے ہیں
اللہ نے تو جدائی میں بھی مزا رکھا ہے
نا سمجھوں کو سمجھایا جا سکتا ہے مگر
عقل وا لوں نے زبانوں کو تالا لگا رکھا ہے

45
دلِ مسلم میں پیدا نرمی کر دے
سبھی شیطانوں کو تُو رَم ی کر دے
گناہوں کی سزا اتنی نہ دے تو
سزا میں اب خدا یا کم ی کر دے
جو منفی سوچ جوہڑ بن گئی ہے
تو اس کو پاک بہتی ندی کر دے

0
38
مل گٸی پھر خاک میں سب دشمنوں کی شادمانی
جونہی آیا ہے ہمارا یار اور دلدارِ جانی
جل گٸے ہیں سب عدو اور حسرتیں بھی راکھ ہو ئیں
جھولیاں بس ہو گٸی ہیں اُن کی اب تو خاک دانی
ہو چکا ہے جب سے دنیا میں مسیحا کا نُزُول
گلشنِ احمد پہ دیکھو آ گٸی پھر سے جوانی

0
51
میرے دل میں ہے کیا کوءی نہ جانے
رب ہی جا نے ہے دو جا کوئی نہ جانے
پیار کے دعوے بہت ہی بڑے لیکن
ہوتی ہے کیا شے وفا کوئی نہ جانے

0
39
اُجلے چہرے، من ان کے کالے ہیں
قوم نے اب جو سانپ پالے ہیں
حق وہ عورت کو کیا دیں گے جو بھی
مُلا کو اللہ کہنے والے ہیں
بد با طن انساں اب نہیں ہیں چھپے
یہ سبھی سب کے دیکھے بھا لے ہیں

0
39
تیری یادوں سے مرا دل معمور ہے
گو تو ملتا بھی نہیں رہتا دور ہے

0
52
کس کے رنگ میں رچ رہے ہو
پی جھوٹ اور کھا سچ رہے ہو
اہل وطن عالم میں کیوں
شور کی طرح سے مچ رہے ہو

0
48
ساز نفرت کا کیوں بجا رہے ہو
تم نہیں جو وہ کیوں دکھا رہے ہو
سچے کو جھوٹا کیوں بنا رہے ہو
ہاتھوں پر سرسوں کیوں جما رہے ہو
قبروں پر سجدہ کیوں ٹکا رہے ہو
مردوں کو زندہ کیوں بتا رہے ہو

0
38
قبروں پر چادریں چڑھا رہے ہو
مردوں کو زندہ کیوں بنا رہے ہو

0
46
تو بخش دے کچھ خاک مبارک قدموں کی
ڈر لگتا ہے اس دن خا لی ہاتھ جا نے سے

0
34
وہ ظالم تھکا ناں جفا کرتے کرتے
مگر تھک گیا میں وفا کرتے کرتے
وہ شکووں کے انبار تھا ساتھ لایا
مگر رہ گیا میں گلہ کرتے کرتے
منافق نئے دور کے بھی تو صاحب
تھکے کب ہیں کارِ ریا کرتے کرتے

0
43
ہر پاسے پئے سپ پھرن سپیرا کوئی نہ لبھے
میرا ملک او جھگی ہویا بنیرا  کوئی نہ لبھے
چنگے بندے دھرتی اُتوں اٹھ گئے سارے لوکو
اج کیہڑا  بندہ آ مُکائے  ہنیرا ؟ کوئی نہ لبھے

0
135
خوب بولتا ہے حسن نثار
پول کھولتا ہے حسن نثار
سب وڈیروں گندے وزیروں کو
اچھا کوستا ہے حسن نثار
ہم وطن سبھی جاہلوں کی بھی
رگ دبوچتا ہے حسن نثار

0
49
میرے دل میں تو ہی سما یا ہے
میرے جیون کا تو ہی سرما یہ ہے
وہ جو بھٹکے د ور خلائوں میں
چاند نے میرے اس کو گہنا یا ہے
ہیں حسیں دنیا میں بہت لیکن
مری نظروں کو تو ہی بھایا ہے

0
50
مال کی طمع سبھی رشتے بھلا دیتی ہے
باپ کو ہاتھ سے بچوں کے سزا دیتی ہے
حرص کا پیالہ کبھی بھرتا نہیں ہے صاحب
آگ دیکھا ہے یہ گھر بار جلا دیتی ہے

0
47
مال و زر سے محبت رشتے بھلا دیتی ہے
بھائی کے ہاتھوں بھائی بھی مروا دیتی ہے
جامِ حرص کبھی بھرتا ہی نہیں ہے صاحب
آگ ہوس کی گھر با ر بھی جلا دیتی ہے

0
51
اپنے دشمن آپ ہیں دوسرا کوئی نہیں
بے وفا دنیا میں اب با وفا کوئی نہیں
عاصی ہیں انساں سبھی پارسا کوئی نہیں

0
59
لب جاں بَخش اب جاں بلب ہو گئے ہیں
ارماں سب گہری نیند سو گئے ہیں
سفرِ زیست میں مرے کیا کیا
ہم نوا یار دوست کھو گئے ہیں
مجھے ان سے گلہ نہیں ہے کوئی
اپنے تھے اب ہو غیر جو گئے ہیں

0
39
جو قر آ ں ریڈ لائن ہے تماری صاحبو تو
سویڈن سے سفیر اپنا بلاتے کیوں نہیں ہو
فراغت کے سوا اب اور وطن میں رکھا کیا ہے
شرافت کچھ ہے تو اس کو دکھاتے کیوں نہیں ہو

0
43
اج فیر یاد اچ تیری دل نے رولا پایا ماہیا
اکھیاں نے وی ہنجواں دا اے چو لا پایا ماہیا

0
46
قوم نے اپنی جہالت کا یہ مداوا کیا ہے
یومِ تقد س قرآ ن منانے کا فیصلہ کیا ہے
تکریمِ شہداء کا غل مچا لینے کے بعد
احتجاجوں کا شروع نیا اک سلسلہ کیا ہے

0
40
ہو مبارک جنم دن حنا جان کو
اللہ اور بھی بڑھائے تری شان کو
اللہ دے اجر اس کا تجھے جو تو نے
ہے ہمیشہ بڑھا یا مرے مان کو

0
37
کوچہ دلبراں میں جو عزت نہیں تو کچھ بھی نہیں
جو دلوں میں پیار کی حدت نہیں تو کچھ بھی نہیں
ہاں بہت سی لذتیں آسائشوں میں بھی ہیں مگر
جب عبادتوں میں ہی لذت نہیں تو کچھ بھی نہیں

0
46
مری قوم تری حالت پر رونا آتا ہے
تجھے پانا نہیں آتا بس کھونا آتا ہے
تیری دھرتی پر گل ناپید ہیں اب کیونکہ
بیجِ نفرت ہی تو تجھے بونا آتا ہے
اخلاق و شرافت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہو
کیا تمہیں فقط اب ہاتھ ہی دھونا آتا ہے

0
62
خاک میں مل گئی سب دشمنوں کی شادما نی
جونہی آ یا ہما را یار وہ دلبر جانی
سبھی جل گئے اور حسرتیں بھی راکھ ہو ئیں
جھولیاں ان کی بنی ہو ئی ہیں اب خ اک دانی
جب سے ہو چکا ہے دنیا میں مسیحا کا نزول
آئی ہے گل شنِ محمدؐ ہی پر تو جوا نی

0
41
سب بگڑے کام بنتے ہیں ماں باپ کی دعائوں سے
مرے مو لیٰ د ور نہ کریو ان کی ٹھنڈی چھائوں سے
انہی کے قدموں سے نکلتا ہے جنت کا راستہ
تو دور رکھیو ان کو سرد اور گرم ہوائوں سے

0
40
راحت ہیں عاشقی میں رسوائیاں سبھی
وہ خوب ہوتے ہیں جو سر دار ہنستے ہیں

0
36
ذروں کو مہر و مہ بنا یا آپؐ نے
بندوں کو اللہ سے ملایا آپؐ نے
روحانی وہ اسرار جو پردے میں تھے
ان سے بھی پردے کو ہٹا یا آپؐ نے
اب تک بھرا ہے جو دلوں میں ہم ار ے
ذوقِ یقیں بھی تو عطا کیا آپؐ نے

0
21
ذروں کو مہر و مہ بنا یا آپؐ نے
بندوں کو اللہ سے ملایا آپؐ نے
روحانی وہ اسرار جو پردے میں تھے
ان سے بھی پردے کو ہٹا یا آپؐ نے
اب تک بھرا ہے جو دلوں میں ہم ار ے
ذوقِ یقیں بھی تو عطا کیا آپؐ نے

0
30
ضیائی شجر پھیلے ہی جا رہا ہے
یہ زہریلے پھل پھینکے ہی جا رہا ہے
یہ کٹے تو ہے اس میں سب کی بھلائی
پہ قانون اسے سینچے ہی جا رہا ہے

0
30
کوئی دسو ہن اے قوم کدر نوں جاوے
کوئی دسو ہن اے قوم کدر نوں جاوے
وزیر مشیر کھاندے نیں چنگے کھابے
غریب دے چولہے ٹھنڈے تے خالی چھابے
سرحد تے کھلوتا دشمن مارے دابے
کوئی دسو ہن اے قوم کدر نوں جاوے

0
29
لب جاں بَخش اب جاں بلب ہو گئے ہیں
ارماں سب گہری نیند سو گئے ہیں
سفرِ زیست میں مرے کیا کیا
ہم نوا یار دوست کھو گئے ہیں
مجھے ان سے گلہ نہیں ہے کوئی
اپنے تھے اب جو غیر ہو گئے ہیں

0
52
نظمیں سبھی جو سنیں تیری تو یہ دل جھوم اٹھا
چشم تصور میں کئی بار تجھے چوم چکا
جگ میں چمکتا رہے محمود ستاروں کی طرح
میرے لبوں پر ہے دعائوں کا ہجوم ہوا

0
42
سب بزرگوں کی ہی دعائوں کا یہ نتیجہ ہوا
بھا نجا مربی بنا ڈاکٹر بھتیجا ہوا
ان کی کامیابیوں کی علمی گرمی سے تو جناب
جسم اور روح کا بھی میرے دور پالا ہوا
عبدالمقیت جی شاہد ملے مجھے تو لگا
آسماں سے کوئی یہ تو ہے ستارہ اترا ہوا

0
39
چھڈو چنگیاں دا پچھا بدکاراں نوں مارو لوکو
ہو سکے تاں بے غیرت لیڈراں نوں مارو لوکو
کٹ مار کے بریاں نوں کلیس مکدی ناہیں لوکو
مکدے رولے جد برے دی ماں نوں مارو لوکو

0
47
کاواں ٹولی اِکو بولی
جھوٹ دے نال کھیڈن ہو لی
مار سٹن جے اناں بارے
جیب کسے نے وی کھولی
اناں دے دل وی کالے
اے کاں سب نوں کران گولی

0
58
لیڈروں کے اب ضمیر جاگ رہے ہیں
پھر سروں پر پیر رکھ کے بھاگ رہے ہیں
جانِب انہی کی یہ با ضمیر جا ئیں گے
جن سے کبھی ان سبھی کے لاگ رہے ہیں

0
39
کھکھڑیاں دے واڑے جد اجڑ جاندے نے
اناں دے وچ بیٹھ گیدڑ جاندے نے
ات خدا دا ویر ہو جاوے تے باگاں دے
سجنو ہو پٹواری گالھڑ جاندے نے

0
70
جو شہدا کی یادگاروں کو گرا لیا تو کیا
اہل وطن نے یومِ تکریم منا لیا تو کیا
جب لگی ہو آگ سبھی کے بدنوں میں وہاں جو
شہریوں نے جناح ہائوس جلا لیا تو کیا

0
49
لوگوں کی بھیڑ میں تنہائی بہت
سجن اب کوئی نہیں بھائی بہت
ہے توانا ئی علم میں بھی مگر
ہے چا ہِ جَہل کی گہرائی بہت

0
55
جو گندوں کے لیے ملامت ہو تی ہے
سچوں کے لیے وہ امرت ہوتی ہے
اور کے لیے آرام کو تج دینا ہی
انسانیت کی اصل خدمت ہو تی ہے

0
45
الفت کا ہر سبق اسے بھی یاد آ گیا
جب آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
شیریں کا حال کیسے نہ برا ہو گا ابھی
آخر کو جو عِتاب میں فرہاد آ گیا

0
39
ہاں تنہائی کی عادت ہو گئی ہے
کہ اشکوں سے رفاقت ہو گئی ہے
گٸے ہنسنے ہنسانے کے وہ دن تو
کہ راحت اب اذیت ہو گئی ہے
ملا ہے جھوٹ اتنا سچ میں اب تو
سچا ئی سے عداوت ہو گئی ہے

0
52
یہ نشہ دید اُتر نہ جائے کہیں
یہ نیت تیری بھر نہ جائے کہیں
بعد مدت کے دیکھا ہے تجھ کو
خواب یہ بھی بکھر نہ جائے کہیں

0
53
منصفو دشمنوں سے تمہیں کو بچانا ہو گا
مجھ کو دوبارہ قید کریں گے یہ خدشہ ہے
جرنیلو تم غور سے سن لو خان کو ورنہ
اب کے وہ بھی جائے گا جو کچھ بچا ہے

0
37
مجھ کو جب اس سے کوئی بھی مسئلہ نہیں ہے
اس کو برا کہوں میں یہ حوصلہ نہیں ہے
مدّت سے رہ رہا ہے جو شخص میرے دل میں
مدّت ہوئی ہے اُس سے بھی رابطہ نہیں ہے
ہاں عشق میں ترے جو جاں سے گزر گئے ہیں
درپیش اُن کو کوئی اب مرحلہ نہیں ہے

0
45
فتنہ بازوں کی اک دن شامت آئے گی
بَکْرے کی ماں کَب تَک خَیْر مَنائے گی
منصفو جرنیلو اور لیڈرو تم کو بھی
آگ جو تم نے لگائی ہے جلائے گی

0
57
جب بھی پالو نسلی کتے ہی پالو
پلے بوائے کتے تم نہ کبھی پالو
بل ڈا گ جرمن شیفر اچھے کتے ہیں
تم گلٹیریا پر کبھی بھی ڈورے نہ ڈا لو

0
71
گھاس مجھ کو اب ڈالتے کیوں نہیں ہو
پیدا کر کے اب پالتے کیوں نہیں ہو
ناجا ئز ہوں لیکن پتر ہوں تمہارا
مجھ سے اب بولتے چالتے کیوں نہیں ہو

0
39
چاہ کا جو بھی دم بھرتے بہت ہیں
دشمنی کی بھی حد کرتے بہت ہیں
تم کبھی انہیں بھی تو سنو یا رو
بولتے نہیں جو کہتے بہت ہیں
رہنْما انہیں مانے ہے مری قوم
کرتے کچھ نہیں جو بکتے بہت ہیں

0
43
جبکہ اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے
اس کو برا کہوں حوصلہ نہیں ہے
میرے دل میں جو رہتا ہے اس سے مرا
ہاں بہت دیر سے رابطہ نہیں ہے
مر گئے عشق میں جو ترے انہیں تو
کوئی درپیش اب مرحلہ نہیں ہے

0
45
نشہ جو چڑھا ہے وہ ابھی اتر جائے گا
جو چار ڈنڈے پڑے تجھ کو تو سدھر جائے گا

0
41
پکڑ سے نا خَلَف بچا رہے ضروری تو نہیں
نقاب چہروں پر پڑا ر ہے ضروری تو نہیں
سب انساں نیک اور گناہ گار بھی تو ہوتے ہیں
اچھا اچھا ، برا برا رہے ضروری تو نہیں

0
38
لو جی عمران گرفتار ہو گئے
پسِ دیوار سبھی یار ہو گئے
کوئی جج بھی انہیں بچا نہیں سکا
جو بھی تھے ہتھکنڈے بیکار ہو گئے

0
73
کم عقل جتنے ہیں بڑےجج وہ کہلاتے ہیں
دن رات سب ہی راگ یہ دستوری گاتے ہیں
اقلیتوں کو مذہبی آزادی ہم نے دی
کم عقل خبریں ایسی بے پر کی اڑاتے ہیں

0
52
بَر اُفق ضوءِ سَحَر کیونکر نہیں چھاتی ہے اب
کیوں شبِ دیجور اپنے گھر نہیں جاتی ہے اب
صورتِ حرفِ غلط قدرت مٹا دے گی اُسے
جانبِ بِر قوم جو خود کو نہیں لاتی ہے اب
جو صُعُوبت اور مشقّت سے نہیں تھے آشنا
فصلِ گل کو قوم وہ اک آنکھ نہ بھاتی ہے اب

0
41
سب سے بہتر ہے جی شیزان جوس
سب سے یہ برتر ہے جی شیزان جوس
جوسوں کا سردار ہے شیزان جوس
ملا ں کا منتر ہے جی شیزان جوس

0
52
سنانے کو کوئی روئیداد تو ہو
چلو انعام نہیں تو کچھ داد تو ہو
یونہی باتیں بنانے سے کیا ہے حاصل
دکھانے کو کوئی جائداد تو ہو

0
43
یہ خدا کے گھر پر جو غصہ اتار رہے ہو
اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہے ہو
دین اور دنیا کی جہا لت کھا رہی ہے تمہی کو
جیت کا جشن منانے وا لو تم ہار رہے ہو

0
39
منہ پر بالٹی کا اک خول چڑھا رکھا ہے
اس عمران نے قوم کو الو بنا رکھا ہے
بس دھونس اور دھمکی کی سیاست ہے اس کی تو
ٹانگ تو ٹوٹی نہیں پلستر چڑھا رکھا ہے

0
49
یہ سب ہی بم پروف گیٹ توڑ ہی دو تم
کرپٹ افسروں کے سر بھی پھوڑ ہی دو تم
سبھی ختم نبوتی ملائوں کو تو اب
ہاں شیروں کی طرح سے بھنبھوڑ ہی دو تم

0
47
پرویز گجراتی صورت سے ہی سودائی لگے ہے
پرویز گجراتی کو ہر عدو مرزائی لگے ہے
ہاں جھوٹ و شیطانی ہی اس کا گندا پیشہ ہے یارو
پرویز گجراتی کی شیطاں سے شناسائی لگے ہے

0
47
کوئی بات اب تو معتبر نہ لگے ہے
اچھی بری خبر خبر نہ لگے ہے
سبھی فرقت زدوں کو شوقِ سحر میں
سنو شب میں اچھا قمر نہ لگے ہے
خزاں کی سب تباہی دیکھنے کے بعد
اب اچھا زیست کا سفر نہ لگے ہے

0
33
عرصہ گزر گیا ہے گل دل کھلے ہوئے
رَنْج و اَلَم مرے دل میں ہیں پلے ہوئے
اس کو نکال ناں سکے دل سے فلسفی
بیکار ان کے تو سب ہی فلسفے ہوئے
اب چار سو ہی اپنا چہرہ دکھائی دے
اب آئنوں سے ہیں آئینے ملے ہوئے

0
54
سچا ئی و اخلاق کو با ہم رکھیں گے
دیں کو دنیا پر سدا مقدم رکھیں گے
اے پیارے اللہ تیری یاد میں ہم
اب تو اپنی آنکھیں بھی پُر نَم رکھیں گے

0
60
ہر ایٹم یہ دہائی دے رہا ہے
ہر اک نعمت خدا ہی دے رہا ہے
فیوژن جوہری وہ ہی عمل ہے
جہاں جس سے دکھا ئی دے رہا ہے
خدا نے اُن کو نعمت دی ہے جن کو
عا لم طعنہ سو دا ئی دے رہا ہے

0
54
عجب قا لب میں اب انساں ڈھل رہے ہیں
لگے روبوٹ ہر جا ہی چل رہے ہیں
گو روں کی خوبیوں کو دیکھ اور سن کر
مو لویوں کے دل و جاں جل رہے ہیں

0
41
سَحَر کی پہلی کرن کیوں اُفَق پہ آتی نہیں
شبِ سیاہ بھی کیوں اپنے گھر کو جاتی نہیں
مٹائی جاتی ہیں حرفِ غلط کی صورت وہ
جو خیر کے لیے قومیں قدم اٹھاتی نہیں
صُعُوبت اور مشقت جنہیں پسند نہیں
تو ان کے واسطے دھرتی بھی گل کھلاتی نہیں

0
52
جھوٹ اور سچائی میں رشتہ کیا ہے
اب سوا اس کے اور جھگڑا کیا ہے
جب شرافت ہی راس جس کو نہیں ہو
اس کا عزت غَیَرت سے پھر ناطہ کَیا ہے
زیر دکھ کوئی قوم آتی ہے جب تو
ہر کو ئی کہتا ہے میں نے کیا کیا ہے

0
37
سب ہی ادارے باہم دست و گریباں ہیں
اب جائیں کہاں پاکستانی حیراں ہیں
دین و مذہب بھی تو کھلونا بن چکے ہیں
ان سے کریں کھلواڑ گروہ مو لویاں ہیں

0
51
آرزو ئے وَصل میں جیا نہیں جاتا
زہرِ جدائی تو اب پیا نہیں جاتا
ہو گئے دیوار و در شکستہ بدن کے
اب تو سنو سانس بھی لیا نہیں جاتا
رہتے ہیں ہم وط ن تو کنول کی طرح سے
ہم سے تو کیچڑ میں اب رہا نہیں جاتا

0
50
ہم وطنوں کی بھی ہے اب اونچی اڑان
پچیس کی روٹی، تیس روپے کا نان
تم کو کیا کیا بتائیں کب تک سنو گے
پھنس چکا ہے دلدل میں پاکستان

3
61
اچھے کو ہر کوئی اچھا دکھائی دے
بر ے کو ہر کوئی برا دکھائی دے
اپنوں سے کرتے ہیں سب پیار پر اچھا
وہ جسے غیر بھی اپنا دکھائی دے
یارو قوت ارادی ایک نعمت ہے
با عمل ہی کو تو اللہ دکھائی دے

29
سَحَر کی پہلی کرن کیوں اُفَق پہ آتی نہیں
شبِ سیاہ کی ظلمت بھی دور جاتی نہیں
ح رف غلط کی طرح وہ مٹائی جاتی ہیں
جو قومیں بھی قدم اچھا ئی کے اٹھاتی نہیں
صُعُوبتیں ہیں بڑی اچھا ئی کے رستے میں
بنا مشقت دھرتی بھی گل کھلاتی نہیں

0
70
ریاست مدینہ بن رہا ہے وطن مرا
کیا تھا کیا یہ بن چکا ہے وطن مرا
ہاں انسان بستے ہی نہیں ہیں ابھی یہاں
منافقستان بن گیا ہے وطن مرا

0
56
لوگوں کی بھیڑ میں تنہائی بہت
سجن اب کوئی نہیں بھائی بہت
ہے توانا ئی علم میں بھی مگر
ہے چا ہِ جَہل کی گہرائی بہت
مرے پیارے خدا ان کو تو دھو دے
جن دلوں پر جمی ہے کاءی بہت

0
54
ہمارا جینا جب دشوار کیا تم نے
ہماری راہ کو ہموار کیا تم نے
ہمیں برباد کرنے کے چکر میں ہی
ہاں رسوا خود کو سر بازار کیا تم نے
تمہیں پر گر گئی وہ جب کبھی ظالم
کا رِ لعنت پسِ دیوار کیا تم نے

0
53
اس کا جنت سے رابطہ ہوتا ہے
جس کا بھی کوئی ہم نوا ہوتا ہے
ان عاشقوں کے بیچ نہیں رہتا
تھوڑا بہت جو فا صلہ ہو تا ہے

0
46
ہر شخص کو جا جا کے پیغام خدا دیں گے
جو رستے میں آئے گی وہ دیوار گرا دیں گے

0
39
لیراں لیراں سیاست ہو گئی اے
جھوٹ چوری عبادت ہو گئی اے
ملک ہن سُکّی را وی لگے لوکو
مردہ دل دی عدا لت ہو گئی اے
بدمعاشاں دیاں ٹوراں نیں ایتھے
ہن نا یاب شرافت ہو گئی اے

0
67
اب کروں میں کیا اپنے ناداں جی کا
لگ گیا ہے اسے روگ عاشقی کا
دیکھ لی ہے جھلک جب سے اس حسیں کی
رہ گیا ہے ہو کر اس کی ہی گلی کا

0
59
شیطا نی وہ خصال رکھے ہیں
تم نے جو غنڈے پال رکھے ہیں
رہبرو اب سنبھل ہی جاؤ تم
رب نے بچھا کے جال رکھے ہیں

0
63
شب ہجراں آئی ہے تو میں تھوڑا ڈر گیا ہوں
اندر سے جیتے جی ہی میں تھوڑا مر گیا ہوں
شوقِ وصال میں اے جانِ جہانِ فانی
اب سر سے پا ئوں تک میں تھوڑا سنور گیا ہوں
کرنے لگا تو ہے وہ کچھ رازوں کو بھی اِفشا
اب گہرے بحر میں میں تھوڑا اُتر گیا ہوں

0
39
جو کو ئ انساں کی آزادی میں خلل ڈالتا ہے
آزادی کو وہ غلامی ہی میں بدل ڈالتا ہے
بے حد اجر ہے جناب اس انسان کے واسطے تو
سچ یہ ہے پیاسے کے منہ میں کو یٔ جو جَل ڈالتا ہے

0
48
جھوٹ کو تو جی پھل نہیں لگتے
غم خوشی میں بدل نہیں سکتے
ہو جہاں بھی منافقت ہی کی رات
دیے بھی و ہا ں جل نہیں سکتے

0
49
جوتوں میں دال بٹ رہی ہے
ٹکڑوں میں قوم بٹ رہی ہے
تاریکی بڑھے ہی جا رہی ہے
نازک دیے کی ضو گھٹ رہی ہے

0
50
اچھی غزل کہے کیسے کوئی
گرد پڑی ہے شبابوں پر

0
113
کبھی تو نے سنی تھی کسی بے بس انساں کی
سنے گا اب کیوں کوئی انساں تجھ ناتواں کی

0
62
سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ
اک شانِ دیدنی سے اِذنِ اَذاں ہے پھر سے
سُبحان تیری قدرت! وردِ زباں ہے پھر سے
ظلمت کدوں میں آخر حق ضَو فِشاں ہے پھر سے
مسرور کے جلَو میں یاں کہکشاں ہے پھر سے
بیت الفتوح مسجد عظمت نشاں ہے پھر سے

0
66
جان جاں جب ہم جہاں سے جائیں گے
تب تجھے بے انتہا یاد آئیں گے

0
50
مولویوں سے محبت کیسے کرے کوئی
ان جھوٹوں کی عزت کیسے کرے کوئی
جیسی نماز پڑھے ہے فرقہ مولویاں
اب اس طرح عبادت کیسے کرے کوئی

60
دشمن جو مرے تو خوشی کریے
دوست کوئی مرے تو غمی کریے
جھوٹے آنسو اب نہ بہائیے
دوغلی سوچ کو اب رمی کریے

0
57
مجھ سے تعلق توڑ دو گے کیا
موت سے رشتہ جوڑ دو گے کیا
مجھ کو اس نے تو چھوڑ دیا ہے
تم بھی مجھ کو چھوڑ دو گے کیا
اپنے ہاتھوں سے تم بھی میری
ہاں گردن ہی مروڑ دو گے کیا

0
79
جو جام ہجرتوں کا پی لیا میں نے
پھٹا ہوا گریباں سی لیا میں نے

0
55
تجھے امیری نے کیا سے کیا بنا ڈالا
خوشی کو گھر سے اپنے تو نے بھگا ڈالا
تری ہوس نے گھر کو دو زخ بنا ڈالا
ہرا بھرا تھا چمن تو نے جلا ڈالا
جوں جوں ترا دھن بڑھنے لگا توں توں صاحب
سبھی دلوں میں اندیشوں نے ڈیرا ڈالا

0
69
کس نے کِیا کیا یہ بات رہنے دیں جناب
یہ میرا غَم ہے مُجھ کو سہنے دیں جناب
جو عُمر با قی بچی ہے کٹ جائے گی
فکر اپنی کریں میری رہنے دیں جناب
رب ہی جانے ہے حال میرے دل کا
تڑپے ہے یہ اسے تڑپنے دیں جناب

8
193
ہم رہ گئے کل بات کرتے کرتے
کیوں رک گئے گُل بات کرتے کرتے
جی بات ہو جاتی جو کیا نہ ہوتا
تم نے تجا ہل بات کرتے کرتے

3
83
گرنے جو لگا تو تُو نے بچایا
رونے جو لگا تو تُو نے ہنسایا
یا رب مرا دل ناتواں کبھی بھی
ڈرنے جو لگا تو تُو نے بہ لا یا
میرے رفیقِ سفر ناگ بن کر
ڈسنے جو لگے تو تُو نے بچایا

0
54
تری شہادت اے شہید رنگ لائے گی ضرور
ہاں تیرے پاک لہو کی مہک لبھائے گی ضرور

0
55
ذروں کو مہر و مہ بنا یا آپؐ نے
بندوں کو بھی رب سے ملایا آپؐ نے
روحانی وہ اسرار جو پردے میں تھے
ان سے بھی پردے کو ہٹا یا آپؐ نے
یہ جو بھرا ہے سب دلوں میں اب تک بھی
ذوقِ یقیں بھی تو عطا کیا آپؐ نے

0
76
گل جو کھلا ز ہر بھر گیا خاروں میں
شیخ شامل تھے اس کے خریداروں میں
ہجر کے ماروں کا بھی عجب حال تھا
ہو گئے سب ہی گل کے وفا داروں میں
جیسی نورِ جبیں سے پھو ٹی رو شنی
ایسی ہو وے نہیں چاند تاروں میں بھی

0
81
ہر ذرّہ میں تُو مَستُور دکھائی دے
گل و بوٹا میں تیرا ظہور دکھائی دے
ہاں دور اور نزدیک تُو ہی تُو دکھائی دے
ظلمت میں بھی تیرا نور دکھائی دے
تیرے رحم کی چادر پھیلی ہے ہر جانبب
ہر گھا ٹے پر اپنا ہی قصور دکھائی دے

0
47
تھک سا گیا ہوں بدلتے موسموں سے وفا کر کے
جی رہا ہوں میں زندگی کو آہ و بکا کر کے
یہ زخمِ دل اب رفو کے قابل ہی کہاں ہے
ٹوٹا ہے یہ مرا دل کئی بار ہی ہاں صدا کر کے
اس بے قراریٔ دل کو ملے گا کچھ تو قر ار
پھونک دو کوئی میرے سینے پر دعا کر کے

0
90
گرنے جو لگا تو تُو نے بچایا
رونے جو لگا تو تُو نے ہنسایا
جب میرا یہ دل ناتواں کبھی بھی
رنجور ہوا تُو نے ہی بہ لا یا
میرے رفیقِ سفر ناگ بن کر
ڈسنے جو لگے تو تُو نے بچایا

0
99
جی اب تو لوگوں میں الفت کی غربت بھی دکھائی دے
یہ غربت ختم ہو تو پھر حقیقت بھی دکھائی دے
قو می اور مذہبی جھگڑوں نے سچ کو مار ڈالا ہے
یہ جھگڑے ختم ہوں تو پھر خلافت بھی دکھائی دے
ملاں کے بھی لبوں پر تو خدا ہے اور دل میں کفر
منافق ختم ہوں تو پھر ہی جنّت بھی دکھائی دے