عرصہ گزر گیا ہے گل دل کھلے ہوئے
رَنْج و اَلَم مرے دل میں ہیں پلے ہوئے
اس کو نکال ناں سکے دل سے فلسفی
بیکار ان کے تو سب ہی فلسفے ہوئے
اب چار سو ہی اپنا چہرہ دکھائی دے
اب آئنوں سے ہیں آئینے ملے ہوئے
ہیرے ملے ہوئے ہوتے ہیں جوں خاک میں
سچ بھی ہیں جھوٹ سے ایسے ہی ملے ہوئے
عاشق زمین پر جب چلتے ہیں تو حسن
سب ہی قدم اٹھاتے ہیں نپےتلے ہوئے

0
56