ان کے چہروں کو ہم نے دل میں سجا رکھا ہے
جن کو اپنوں نے کہیں دور چھپا رکھا ہے
راز محبت جاننے والے یہ جانتے ہیں
اللہ نے تو جدائی میں بھی مزا رکھا ہے
نا سمجھوں کو سمجھایا جا سکتا ہے مگر
عقل وا لوں نے زبانوں کو تالا لگا رکھا ہے
جو اپنے بچھڑے ہیں انائوں کے میلے میں
ہر اک ان کے واسطے در کھلا رکھا ہے
پہلے مٹا سکی ہم کو نہ اب مٹا سکے گی
جس تاریخ نے خود کو دہرا رکھا ہے
سانپ اب آستیں کے جو نکل رہے ہیں ان کو
زہرِ بغض نے دیوانہ سا بنا رکھا ہے
جیسی اب کے انساں نے بدلی ہے جون حسن
شیطاں نے بھی اپنی نظروں کو جھکا رکھا ہے

46