کوئی بات اب تو معتبر نہ لگے ہے
اچھی بری خبر خبر نہ لگے ہے
سبھی فرقت زدوں کو شوقِ سحر میں
سنو شب میں اچھا قمر نہ لگے ہے
خزاں کی سب تباہی دیکھنے کے بعد
اب اچھا زیست کا سفر نہ لگے ہے
ابھی فرصت کے دن ہیں پھر بھی مجھے کیوں
مرا اپنا مکان گھر نہ لگے ہے
ابھی تک شیطا نی روش میں ملاں کی
رتی بھر بھی تو ہاں کسر نہ لگے ہے
کسی سے گلہ شِکوَہ کرنا نہیں حسن
گلہ سے پیار کا شجر نہ لگے ہے

0
34