ماں کی گود اور باپ کا سینہ چاہتا ہوں
پھر بچپن کا دور سہانا چاہتا ہوں
ماں دیتی ہے لوریاں گویا سوچ کے یہ
راحت کی کچھ نیند میں سونا چاہتا ہوں
پتلی تھک کر چور سی ٹانگیں باپ سے ہی
دیوانے کا دور لڑکپن چاہتا ہوں
روٹھوں سن کر ڈانٹ ڈپٹ ابا کی کبھی
ماں کا آ روٹھے کو منانا چاہتا ہوں
خواہش جاگی آج ہے پھر کہ ابا کی میں
انگلی تھامے شان سے چلنا چاہتا ہوں
دھندلائے ہیں ضبط میں اتنا قلب و نظر
کھل کر ہنسنا پھوٹ کے رونا چاہتا ہوں
دنیا کے سب رنگ ہیں اب تو دیکھ لئے
چڑیا گھر پھر سیر کو جانا چاہتا ہوں
دنیا پڑھ لکھ اور کما کر دیکھ لی ہے
ما قبل از اسکول زمانہ چاہتا ہوں
دم لینا دشوار ہے اب ہر سو ہے گھٹن
چھت پر گھر کی آج میں سونا چاہتا ہوں
کھانے میں ہر چیز میسر آج ہے پر
پھلکا ماں کے ہاتھ کا کھانا چاہتا ہوں
بچوں سے جوں آج بہلتا دل ہے مرا
باپ اور ماں کے دل کو لبھانا چاہتا ہوں
عمریں گزریں کھل کے کبھی رویا ہی نہیں
سر رکھنے کو پھر کوئی شانہ چاہتا ہوں
سو جائیں گی جاگتی آنکھیں چارہ گرو
سر بس ماں کی گود میں رکھنا چاہتا ہوں
کتنے سر اور ساز سنے پر دھڑکن دل
ماں کی پھر اس گود میں سننا چاہتا ہوں
سچ ہے ماضی لوٹ کے آ سکتا تو نہیں
بس گزرے لمحات میں کھونا چاہتا ہوں
رحمت یا رب ان پہ تری ہر آن رہے
جن کی میں یادوں میں بہلنا چاہتا ہوں
جنت میں ماں باپ رہیں سب کے ہی حسن
یا رب بس فریاد یہ کرنا چاہتا ہوں

0
9