اگر تجھ میں ملنے کی ہمت نہیں ہے
تو سندیسوں کی کچھ ضرورت نہیں ہے
نہ دے ساتھ گر یار ہی ابتلا میں
لبادہ ہے جس میں محبّت نہیں ہے
ترے چھوڑ جانے پہ تڑپا بہت تھا
ستم یہ کہ اب تیری حاجت نہیں ہے
کسک درد کی جو لکھی تُو نے دل پر
وہ مٹ جائے ایسی عبارت نہیں ہے
رقیبوں سے مل کے ترا جیت جانا
یہ خونِ وفا ہے ، کرامت نہیں ہے
تذبذب ہے لازم ابھی عشق کو بھی
اگر حُسن میں کچھ نفاست نہیں ہے
حسَن لے کے دل توڑے کافر جو کوئی
کہے کون کافر ، شرارت نہیں ہے

0
6