بَر اُفق ضوءِ سَحَر کیونکر نہیں چھاتی ہے اب
کیوں شبِ دیجور اپنے گھر نہیں جاتی ہے اب
صورتِ حرفِ غلط قدرت مٹا دے گی اُسے
جانبِ بِر قوم جو خود کو نہیں لاتی ہے اب
جو صُعُوبت اور مشقّت سے نہیں تھے آشنا
فصلِ گل کو قوم وہ اک آنکھ نہ بھاتی ہے اب
رہنما مردِ خدا جس قوم کو حاصل نہیں
نشأةِ ثانی کے بس وہ خواب دہراتی ہے اب
جو اِمامِ وقت سے بیعت ہوئے طاعت شعار
نارِ ابلیسی کہاں اُن کو جَلا پاتی ہے اب
رکھ خدا پر ہی توکّل ہر بھلائی اسمیں ہے
لَو لگا کے دیکھ کب دنیا تجھے بھاتی ہے اب
آس اپنی کا دِیا بجھنے نہ دینا اے حسن
کامیابی دیکھنا تجھ سے کہاں جاتی ہے اب

0
44