ہاں تنہائی کی عادت ہو گئی ہے
کہ اشکوں سے رفاقت ہو گئی ہے
گٸے ہنسنے ہنسانے کے وہ دن تو
کہ راحت اب اذیت ہو گئی ہے
ملا ہے جھوٹ اتنا سچ میں اب تو
سچا ئی سے عداوت ہو گئی ہے
ابھی یہ عشق کوٸی کیا کرے گا
کہ اب عاشقی بھی تہمت ہو گئی ہے
مری میت کو جلا یا نہیں ہے
یہ تھوڑی سی رعایت ہو گئی ہے
مرے قاتل کے حق میں شیخ جی کو
لو جنت کی بشارت ہو گئی ہے
تجھے تو اے حسَن غم میں جہاں کے
فقط رونے کی عادت ہو گئی ہے

0
23