آرزو ئے وَصل میں جیا نہیں جاتا
زہرِ جدائی تو اب پیا نہیں جاتا
ہو گئے دیوار و در شکستہ بدن کے
اب تو سنو سانس بھی لیا نہیں جاتا
رہتے ہیں ہم وط ن تو کنول کی طرح سے
ہم سے تو کیچڑ میں اب رہا نہیں جاتا
آتشِ حسرت میں جلا برسوں تلک دل
سوختہ دِل سے اب اور جلا نہیں جاتا
ہم خو ب دوڑے ہیں تیرے عشق میں دِلبر
کیا کریں ہم سے تو اب دو ڑا نہیں جاتا
بھولنا تو وقت کی ہے ریِت حسن جی
مرنے وا لوں پر سدا رو یا نہیں جاتا

0
52