سنو بُوڑھے کو تھوڑا وقت بھی دَرکار ہوتا ہے |
وہ بِیماری و تَنہائی سے جب دوچار ہوتا ہے |
سنو ان کے لیے جلدی ہی لَوٹ آیا کرو گھر کو |
کہ بُوڑھوں کی شِفا بچوں کا ہی دیدار ہوتا ہے |
اُٹھا کر جو گھماتا تھا تجھے اپنی جوانی میں |
اسے چلنے میں اب بازو ترا درکار ہوتا ہے |
کبھی اُف تک کہو نہ دِل کبھی اِن کا دُکاؤ تم |
کہ اِن بُوڑھے دِلوں میں تو تمہارا پیار ہوتا ہے |
رضا ان کی تو زینہ ہے رضائے رَبّ رحماں کا |
دُعا ماں باپ کی جو لے وہی اَبرار ہوتا ہے |
سنو بُوڑھا دوا، خوراک کا ہی تو نہیں طالِب |
مُحَبَّت اور دِلداری کا بھی حَقدار ہوتا ہے |
بہاروں کا سماں ماں باپ سے ہی تو وابَستَہ ہے |
اِنہیں سے گھر کا گُلشن تو گُل و گُلزار ہوتا ہے |
اگر یہ سایہءِ اَشجار چِھن جائے کوئی دن تو |
بہت اُجڑا و سُونا سا دِل و پروار ہوتا ہے |
سنبھالے جی سنبھلتا ہی نہیں ذکرِ خزاں پر تو |
کہوں کیا تیر کیسا ہے جو دِل کے پار ہوتا ہے |
وفاداری و دِلداری نہیں ماں باپ سے جس کو |
حسنؔ اُس کا تو بس شیطان ہی دِلدار ہوتا ہے |
معلومات