سنو عشق تو کوئی پیشہ نہیں ہے
وہ کیا عشق گر ساتھ تیشہ نہیں ہے
جھلک خون دے آنسوؤں میں تو سمجھو
کہ ہے عشق صافی تماشہ نہیں ہے
بظاہر نظر آئے تنہا بھی عاشق
اکیلا کبھی بھی وہ حاشا نہیں ہے
غم عشق کی بے خودی بھی عجب ہے
کہ سود و زیاں کا اندیشہ نہیں ہے
بہت کیف و مستی ہے مے ناب میں بھی
مگر عشق جیسا تو نشہ نہیں ہے
سوا عشق بھی روگ ہیں زندگی کے
مگر کوئی اس سا ہمیشہ نہیں ہے
ابھی دور ہے وہ مقام جنوں سے
حسن عشق گر بے تحاشا نہیں ہے

0
28