مجھے اب اپنے بھی اپنے نہیں لگتے
مجھے اب سچے بھی سچے نہیں لگتے
چلی ہے دانشوری کی ہوا ایسی
مجھے اب بچے بھی بچے نہیں لگتے
سنو دجال بھی اب گل کھلائے گا
ارادے اس کے بھی کچے نہیں لگتے
اچھی باتیں سمجھ کر جھومتے ہیں جو
مجھے یہ لوگ بھی سمجھے نہیں لگتے
ہاں لکھے تھے کہانی کاروں نے کل جو
مجھے وہ قصے بھی قصے نہیں لگتے
ضعیفی کی سزا میں لگتے ہیں جو بھی
مجھے وہ دھکے بھی دھکے نہیں لگتے
جو دل کا سرور اور آنکھوں کی ٹھنڈک تھے
وہ پکے رشتے بھی پکے نہیں لگتے
تجھے جو دوست ہنس کر ملتے ہیں اے حسن
بتا کیوں اب وہ بھی اچھے نہیں لگتے

0
9