تیرے اشاروں پر جو چل رہے ہیں
وہ ہجر کے شعلوں میں جل رہے ہیں
گھائل تو نے کیا تھا جنہیں زباں سے
وہ تیرے دشمن اب سنبھل رہے ہیں
سن آسماں کے جوں بدلتے ہیں رنگ
اطوار تیرے بھی بدل رہے ہیں
بد خلقی پر تیری گلہ کیا ہے
اخلاق کو لہجے نگل رہے ہیں
اس دور میں سچائی کے علاوہ
رشتے بھی ہاتھوں سے نکل رہے ہیں
تم یہ کیا قصہ سنا رہے ہو
انسانوں کے اب پر نکل رہے ہیں

0
27