آرام و خوشی سب کا مقدر نہیں ہوتا
جی چاہتا ہے جو وہ میسر نہیں ہوتا
دیکھا تھا کسی بستی میں آنکھوں نے مری جو
نظروں سے وہ گم بھوک کا منظر نہیں ہوتا
جنّت میں جو روحوں کی ہے تسکین کا ساماں
زندوں کو گماں اس کا تو اکثر نہیں ہوتا
ناکام گھڑی میں ترا اے حضرتِ انساں
یُوں گھٹنوں کے بل گرنا تو بہتر نہیں ہوتا
اے جبہ و دستار سجائے ہوئے لوگو
ان سے کوئی اخلاق کا پیکر نہیں ہوتا
جو حشمتِ دنیا ہی کا شیدا رہے صاحب
وہ شخص کبھی مردِ قلندر نہیں ہوتا

0
2