Circle Image

Md. Kalimuddin

@behiskalim

جام شیشے میں ہے دم بدم ساقیا
اب تو رندوں پہ کر دے کرم ساقیا
صبر کی سرحدیں ٹوٹنے ہیں لگیں
پینے والوں کا نکلے نہ دم ساقیا
-----------------
تیرے مقتل میں یہ جاں نثار آئے ہیں

0
7
کہہ دو نیندوں سے کہ احساس پرانا دیکھے
"مدتیں بیت گئیں خواب سہانا دیکھے "
اسلئے اپنی ہتھیلی پہ لکھا ہے ترا نام
مری قسمت کا یہ احسان زمانا دیکھے
توڑ دینے سے بھی وہ دل سے نہیں جائیں گے
ان سے کہنا کہ کوئی اور بہانہ دیکھے

0
6
الزام اگر دریا پہ ڈالے نہیں جاتے
کیوں ڈوبنے والے پھر اچھالے نہیں جاتے
اے شمس مساوات پہ اپنی تو نظر کر
گھرایسے بھی ہیں جن میں اجالے نہیں جاتے
طوفان و حوادث تو گزر جاتا ہے لیکن
بادل تری زلفوں کے یہ کالے نہیں جاتے

0
21
وحشتِ دل کی یہ صحرائی نہیں جاتی ہے
بھیڑ میں رہ کے بھی تنہائی نہیں جاتی ہے
دل یوں برباد ہوا ہے کہ بہاروں میں بھی
رنج و غم کی کبھی پروائی نہیں جاتی ہے
ہم سمجھتے تھے کہ حالات بدل جائیں گے
پ تمناؤں کی انگڑائی نہیں جاتی ہے

12
کتنے جلووں میں نمایاں اے مری جان ہو تم
کبھی شعلہ کبھی شبنم کبھی طوفان ہو تم
شوخیِ گل ہے اداؤں پہ تمہاری قرباں
نازکی اور نزاکت کا وہ عنوان ہو تم
رشک کرتی ہیں غزل جس پہ زمانے کی سبھی
میر کے لہجے میں غالب کا وہ دیوان ہو تم

0
6
اب تری جدائی میں مجھکو ایسے جینا ہے
آنسوؤں کے ساگر کو بوند بوند پینا ہے
زندگی نئی تمکو جانِ جاں مبارک ہو
میرا کیا ہے میرا تو ڈوبتا سفینہ ہے
دل کے موسموں کا حال کیا کہوں میں تیرے بعد
ایک تپتے صحرا میں جون کا مہینہ ہے

0
10
بیتاب کر گئی ہمیں رنگیلی چوڑیاں
نیلی گلابی لال ہری پیلی چوڑیاں
بجنے لگی ہے دھڑکنیں جھنکار کی طرح
پہنی ہے جب سے آپ نے البیلی چوڑیاں
دیکھوں جو آنکھ بھر کے میں اسکی طرف کبھی
کرتی ہیں دل پہ چوٹ یہ نخریلی چوڑیاں

19
پھولوں سے شکایت نہ بہاروں سے گلہ ہے
خوشبو کی مخالف تُو گلستاں کی ہوا ہے
اے ابرِ گریزاں دلِ تشنہ پہ ترس کھا
کیوں پیاسے کو سودائی تو کرنے پہ تُلا ہے
یادوں کی کتابوں سے جو آتی ہیں کراہیں
کیا جانیے کس لفظ کے رونے کی صدا ہے

0
7
ہو میرے لب پر تری تمنا
ہے میرے دل کی یہی تمنا
سب آرزوئیں ہوئی مکمل
تو دل میں جب سے بسی تمنا
اداس رستہ ہے دل یہ میرا
خوشی کی تو اک گلی تمنا

0
17
موتی اشکوں کو بنانا ہے مجھے
قرض سیپِی کا چکانا ہے مجھے
ایک دریا کو ہے شعلوں کی پیاس
آگ پانی میں لگانا ہے مجھے
اک حقیقت کو بیاں کرنے کے بعد
اک کہانی پہ بھی آنا ہے مجھے

0
10
خواب ہمارے پنکھ پسارے
نیل گگن کے جھیل کنارے
چل نکلے ہیں چھونے تارے
رات اندھیری بھی آۓ گی
تپتا سورج بھی دہکے گا
پر ہے ارادہ چٹانوں سا

0
11
اک ماں کی ہے تمنا تم لاج اس کی رکھنا
مجھ کو یقیں ہے پورا مانو گے میرا کہنا
ماں بیٹے کی ہے باتیں ہرگز نہ دل پہ لینا
ڈانٹوں بھی میں اگر تو تم پیار ہی سمجھنا
ہاں ہو جوان اب تم بوڑھے بھی ہو گئے ہو
ماں کی نظر سے دیکھو بچے ہی لگ رہے ہو

0
11
تجھ پہ قربان جان و تن میرا
اے وطن تو ہےبانکپن میرا
کیوں نہ آۓ وفا کی خوشبوئیں
تیری مٹی کا ہے بدن میرا
آرزو لال کی ہے تیرے یہی
ہو ترنگا ہی یہ کفن میرا

0
13
گلشن میں یہی ہر بار ہوا
کانٹوں سے کسی کو نہ پیار ہوا
قسمت ہے اپنی اپنی اے دوست
کوئی گل تو کوئی خار ہوا
دستور محبت کا ہے یہی
کوئی ڈوبا تو کوئی پار ہوا

0
20
27 دسمبر ،مرزا اسداللہ خاں غالب کی یومِ پیدائش کے موقعے پر چار اشعار
----------------------------------------------------------------
کیوں نہیں کھلتا ہے رازُ اسکی کسی تحریر کا
ہو چکا اب کاغذی بھی پیرہن تصویر کا
حق بیانی پر اثر ہےترشِئی الفاظ سے
ریزہ ریزہ ہے بدن سارا اناۓ شیر کا

0
15
مستی نہیں ہے ایسی کسی بھی شراب میں
جیسا نشہ ہے تیرے لبوں کے گلاب میں
اللہ یہ نگاہیں یہ نظروں کی بجلیاں
دیکھے سے انکے آتے ہیں سارے عذاب میں
جو بات ہے تری رخِ انور میں جانِ جاں
ہے آفتاب میں وہ نہ ہی ماہتاب میں

0
24
فضائیں کتنی حسیں مستیاں بناتی ہے
وہ زلف کھول کے جب بدلیاں بناتی ہے
وہ اک جسے تھا سروکار صرف موتیوں سے
سنا ہے وہ کہیں اب سیپیاں بناتی ہے
وہ جو بناتی تھی گالوں پہ میرے سرخ نشان
اب اسکی یاد مری ہچکیاں بناتی ہے

0
20
ہوتا ہے کیوں جہاں میں یہی آدمی کے ساتھ
جیتے ہیں سب کسی نہ کسی بے بسی کے ساتھ
دشمن سے مل رہا ہے بڑی دوستی کے ساتھ
پالا پڑا ہے اسکا بھی کیا زندگی کے ساتھ
ہر آدمی یہاں پہ ہے کرتا گزارشیں
کوئی کسی کے ساتھ تو کوئی کسی کے ساتھ

0
20
دھوم مچی  ہے چاروں طرف آئی دیوالی
دیپوں کی لڑی میں ہے خوشی لائی دیوالی
بن کے گھٹا خوشی کی دیکھو چھاںٔی دوالی 
من کو مرے بھی یارو بڑا بھائی دیوالی
بچوں کی خوشی دیکھ کے مسکاتے ہیں بابا
 لے کے بلائیں انکی مچل جاتی ہیں ماتا

0
22
دل سے نکلی ہوئی آہوں کا بیاں ہے اردو
بےزباں اشک کے دھاروں کی زباں ہے اردو
ذوق مومن کے تصور کی ہے یہ حسن پری
میرو غالب کے تغزل کا نشاں ہے اردو
اپنے لہجے میں بسا رکھی ہے ممتا کی لہر
لفظ و احساس کے جذبات کی ماں ہے اردو

0
24
ساحل کوئی نہ کوئی بھی پتوار چاہیے
دریا تری بھنور کا ہمیں پیار چاہیے
رسوائی کے بغیر مکمل نہیں یہ عشق
اقرار ایک اور سو انکار چاہیے
ہر درد کی دوا ہے میسر جہان میں
قابل مگر علاج کے بیمار چاہیے

0
36
کیا خلاؤں میں ہی فریاد سفر کرتی ہے
کیوں دعا میری نہیں کوئی اثر کرتی ہے
زندگی موت کا سامان اٹھاۓ سر پر
روز جینے کا نیا ایک ہنر کرتی ہے
جن کی ممتاؤں سے پھیلا ہے اجالا ہر سو
تیرگی اب انہیں آنکھوں میں بسر کرتی ہے

0
31
یوں در بدر جو ڈھونڈھتا ہے تو زمانے میں
موجود ہے وہ شخص ترے ہر فسانے میں
رشتوں میں تم کبھی جو نہیں کرتے در گذر
گزرے نہ عمر ساری ہی رونے رلانے میں
اک ساتھ رہ کے رونے میں آتا ہے جو مزہ
تنہا کہاں وہ لطف سدا مسکرانے میں

0
23
رہتا ہے دل اداس یہ غم خوار دیکھ کر
ڈاکہ پڑے نہ دولتِ آزار دیکھ کر
معیار گر گیا ہے کہ قیمت ہے بڑھ گئی
بکنے لگا ہے ہر کوئی بازار دیکھ کر
شوقِ وصالِ یار کی اِتنی ہی تھی بساط
دیکھا گیا نہ اُس طرف اک بار دیکھ کر

0
30
ایسی مچی ہے دھوم وہاں چندر یان کی
حیران ہے ہر ایک بصیرت جہان کی
ہوگا نہ داغ اب کوئی چہرے پہ چاند کے
مٹی جو لگ گئی مرے ہندوستان کی

0
---------اے قلم کے سوداگر-------
اے قلم کے سوداگر امن کا نہ سودا کر
درمیاں دو بھائی کے نفرتیں نہ پیدا کر
تم نے کل جو بویا تھا آج لہلہایا ہے
خون بھائی بھائی کا دیکھو کرنے آیا ہے
جب چمن کا بلبل ہی زندہ رہ نہ پاۓ گا

0
24
ترے عارض پہ یہ کاکل جو گماں کرتا ہے
شعلہِ حسن کے جلووں کو جواں کرتا ہے
کیوں نگاہیں نہ لڑیں جھانکتی انگڑائی سے
دولتِ حسن کا پردہ ہی بیاں کرتا ہے
کر گزرتی ہیں جو دو نیم نظر تیری یہ
قتل ایسے یہ کہاں تیر کمان کرتا ہے

0
19
اشارے کناۓ ہیں ان کو عزیز
شریفوں کے جب سے ہوۓ وہ عزیز
نچھاور کرو جان بھی اس پہ تم
کسی کو اگر تم جو کہہ دو عزیز
ہے تم سے یہی التجا دلربا
ہمیں بھی تم اپنا بنا لو عزیز

0
19
اس قدر رات بھر غم کی دہلیز پر
سر پٹکتی رہی میری تنہائیاں
دل یہ معصوم ، ہاتھیں ہی ملتا رہا
چوٹ کھاتی رہی میری تنہائیاں
ہجر کا جشن ہم یوں مناتے رہے
آنسؤں کی لڑی کو سجاتے رہے

0
28
ہوش مشکل ہے مرا جام چھلک جانے سے
ساقیا آج نہ تو روک بہک جانے سے
کون ہوتا ہے پریشان اب اس دنیا میں
قیس کے رونے سے کویل کے کہک جانے سے
ترے میخانے میں ساقی مرے وہ بات نہیں
جو نشہ ہے جواں اک پھول مہک جانے سے

0
13
سارے اپنے جدا ہو گۓ اب گلے سے لگاۓ گا کون
سوچتا ہوں یہی رات بھر ساتھ آنسو بہاۓگا کون
ساتھ رہنا تو اے میرے غم اب کوئ بھی نہیں ہے مرا
ہو گیا گر جو تو بھی جدا ساتھ میرا نبھاۓ گا کون
دھڑکنیں اپنی قابو میں رکھ دم نکلنے نہ پاۓ ترا
دل مرے گر تو ہی مر گیا تیری میت اٹھاۓ گا کون

0
20
سہل مت جان اسے نادانی میں
مشکلیں ہیں بڑی آسانی میں
کتنا بیتاب ہوا جاۓ ہے دل
آگ اب لگ رہے گا پانی میں
نہ بدل صورتیں اپنی اتنی
خود ہی آجاۓ گا حیرانی میں

0
34
اس قدر رات بھر غم کی دہلیز پر سر پٹکتی رہی میری تنہائیاں
دل یہ معصوم ، ہاتھیں ہی ملتا رہا چوٹ کھاتی رہی میری تنہائیاں
ہجر کا جشن ہم یوں مناتے رہے آنسؤں کی لڑی کو سجاتے رہے
آنکھ کی رات میں جگنُؤں کی طرح جھلملاتی رہی میری تنہائیاں
وصل کی بات پر انکے سوغات پر کروٹیں ہم بدلتے رہے رات بھر
بیٹھی پہلو میں میرے مجھے دیکھ کر مسکراتی رہی میری تنہائیاں

0
30
جو ڈالیوں میں رہنے کی زینت سمجھتے ہیں
وہ پھول اپنے کانٹوں کی الفت سمجھتے ہیں
میں چاہتا ہوں دوست پشیماں نہ ہو کہیں
وہ چاہتوں کو میری عداوت سمجھتے ہیں
انکو پتہ نہیں کہ شرافت ہے چیز کیا
حلوہ کھلانے کو ہی وہ عزت سمجھتے ہیں

0
42
چشمِ بےزار میں کیا کیا نہیں منظر آیا
کبھی صحرا کبھی طوفاں کبھی ساغر آیا
پہلے پہلے تو کیا غرق مجھی میں مجھکو
بن کے سیلاب پھر آنکھوں سے وہ باہر آیا
دل کھلونا ہے وہاں ٹوٹ ہی جا نا ہے اسے
میرے دل تو بھی کہاں دل کو لگا کر آیا

0
37
عکس نے کر دیا نڈھال ہمیں
آئینہ تو ہی اب سنبھال ہمیں
سرحدوں سے انا کی میں نکلوں
کاش آ جاۓ ایسی چال ہمیں
ڈوب کر تجھ میں ہو گیا ہوں گم
تو ہے دریا تو پھر اچھال ہمیں

0
30
من کے اندر ارمانوں کے پھول کھلاۓ بیٹھے ہیں
آ بھی جا اب ساجن میرے نین بچھاۓ بیٹھے ہیں
تن من کے اس نیل گگن میں پریم کی جھلمل جیوتی کا
چاند ستاروں سی کایا میں دیپ جلا ۓ بیٹھے ہیں
کتنا اچھا ہوتا ساجن تم بھی ہوتے پاس مرے
کنگن چوڑی مہندی گجرا ہار منگاۓ بیٹھے ہیں

0
15
غم ہے کہ بہانہ مجھے کرنا نہیں آتا
خوش بھی ہوں کہ وعدوں سے مکرنا نہیں آتا
جاتے ہیں چلے چھوڑ کے تنہا سبھی اسکو
پھر بھی دلِ ناداں کو بچھڑنا نہیں آتا
کرنا ہے تو کر مجھکو قبول ایسے ہی جاناں
اوروں کی طرح سجنا سنورنا نہیں آتا

0
11
خود کو دنیائے حقیقت سے گذر جانے دے
دل اگر ٹوٹ گیا ہے تو بکھر جانے دے
چلتے چلتے مرے پاؤں تو نہیں ہیں تھکے پر
کب سے ہوں راہ میں ہی میں مجھے گھر جانے دے
پارسائی کے نشے میں ہو گیا چور ہوں میں
لا شراب آج نشہ بھی یہ اتر جانے دے

0
39
کیوں نہیں کھلتا ہے رازُ اسکی کسی تحریر کا
ہو چکا اب کاغذی بھی پیرہن تصویر کا
حق بیانی پر اثر ہےترشِئی الفاظ سے
ریزہ ریزہ ہے بدن سارا یہاں ہر شیر کا
جذبئہ شوق اپنے پندارِ میاں میں ہی رہی
دم نکلنے ہی نہ پایا خنجَرو شمشیر کا

0
گلشن میں یہی ہر بار ہوا
کانٹوں سے کسی کو نہ پیار ہوا
قسمت ہے اپنی اپنی اے دوست
کوئی گل تو کوئی خار ہوا
دستور محبت کا ہے یہی
کوئی ڈوبا تو کوئی پار ہوا

0
11
پیار کا مول اذیت سے چکانا ہی پڑا
زخمِ دل کو ہمیں نمکین بنانا ہی پڑا
بےبسی اور بھلا اس سے بڑی کیا ہوگی
چھوڑ کر اپنوں کو غیروں سے نبھانا ہی پڑا

0
31
اتنی نم ناک یہ زندگی آج ہے
وقت سے ڈر گئی ہر گھڑی آج ہے
بدگماں، غمزدہ، بے حیا، زندگی
جانے کیا کیا مجھے کہہ رہی آج ہے
پھینک آیا جسے، راہ میں، گَٹھری سے
بوجھ من کا وہی بن گئی آج ہے

0
45
طوفان و تلاطم مرے جذبات کرے ہے
وہ بات کرے ہے کہ کرامات کرے ہے
دشمن ہے وہ ایسا کہ مدارات کرے ہے
یاری میں بھی وہ دشمنوں کو مات کرے ہے
کرتا ہوں تقاضاۓ ملاقات جب ان سے
ہر بار وہ عیار نئی بات کرے ہے

0
40
تیری یادوں کا جب سفر مہکے
دل کی دنیا کا ہر نگر مہکے
گل کو بھی وصل کی تمنا ہے
دیر سے ہی سہی مگر مہکے
سنتے ہی انکے قدموں کی آہٹ
رنگ و خوشبو سے رہ گذر مہکے

0
46
قدر روشنی کی اندھیروں میں ہے
انا کیوں پھر اتنا اجالوں میں ہے
ہے رندوں کی اب آبرو داؤ پر
یہ مدہوشی جو ہوش والوں میں ہے
شبِ وصل کا مارا ہوں دوستو
شبِ ہجر تو میرے اپنوں میں ہے

0
50
لٹانا خزانہ اگر ہو سکے تو
سدا مسکرانا اگر ہو سکے تو
زمانے کی راہیں بہت ہی کٹھن ہیں
نہ گرنا گرانا اگر ہو سکے تو
چلے ہو تو منزل ملےگی یقیناً
پہونچنا بلانا اگر ہو سکے تو

0
44
ہم انہیں اپنا مان بیٹھے ہیں
اسلۓ بے زبان بیٹھے ہیں
نفرتوں کے نگر محبت کی
ہم لگاۓ دکان بیٹھے ہیں
تم دلاثہ بھی دے نہیں سکتے
ہم لٹاۓ جہان بیٹھے ہیں

0
53
مرے ہی دل کے مکاں سے نکلا
یہ دھواں سا جو یہاں سے نکلا
پھر ابھر کے مری جاں سے نکلا
یہ دھواں سا جو دھواں سے نکلا
رنگ لائی ہے بلاۓ عشق یہ جب
دل جلوں کے دل و جاں سے نکلا

0
12
اب ان سے دل کا معاملہ یوں بیاں کریں گے
سکوتِ لمحہ سخن نظر کو زباں کریں گے
اک آن میں ڈھیر ہوگا لشکر یہ خواہشوں کا
کہ جب وہ مزگاں کو تیر ابرو کماں کریں گے
ہمیں سمجھنا نہ بادلوں تم رقیب اپنا
جو درد دل کو ہم اپنے رو رو بیاں کریں گے

2
55
دوگانا
--------
نینوں کا ہے نین سے کہنا
او مرے ساجن او مرے سجنا
بولو سجنی کیا ہے کہنا
بھیگ رہے ہیں کیوں یہ نینا

1
71
لال گلابی نیلے پیلے رنگوں کی بوچھاڑ
شیام شَوِیت کا بھید مٹانے آئی ہولی یار
پھاگن کی سوغات رے بھیا ہولی کا تہوار
جت دیکھو ات پریم سے گونجے مستوں کی جے کار
--------------------------------------------
گوری کا مکھ چوم رہا یہ رنگوں کا سیلاب

43
قتل کا ہی نہ لے کام ان آنکھوں سے
لا پلا ساقیا جام ان آنکھوں سے
تجھکو رندوں کی تشنہ لبی کی قسم
ٹوٹتے صبر کو تھام ان آنکھوں سے
ہم ہیں میکش ترے بادہ و جام کے
کردے رنگیں حسیں شام ان آنکھوں سے

0
58
دل اداس تو ہے لیکن یہ ناامید نہیں
ہوئی ہے رات ابھی ڈوبا تو خورشید نہیں

0
43
اب کون سنے اِس دلِ ناشاد کی باتیں
کرتا جو نہیں شیریں و فرہاد کی باتیں
فریاد تو کرتے ہیں خدا سےسبھی لیکن
لگتی ہیں بری سبکو ہی فریاد کی باتیں
"کہنا بڑوں کا مان" ضعیفی میں ہیں سمجھے
آئی سمجھ ، اک عمر میں استاد کی باتیں

0
56
چہرے پہ یوں لگا چہرہ خودنمائی کا
ہے قرض دار پیسہ پیسہ کمائی کا
ٹکڑوں میں بٹ گیا ہوں ہوتے ہی میں بڑا
حصے سے کٹ گیا ہے پر حصہ بھائی کا
یوں مسکراتے ہیں وہ حالات پر مرے
مایوس ہے نظارہ بھی جگ ہنسائی کا

0
62
اے وطن اے وطن جان من جان من
اے وطن اے وطن جان من جان من
دل ترا جاں تری تو مرا بانکپن
تیرے دم سے ہی ہے یہ خوشی اور غم
ہے رگوں میں بسا میرے تیرا چلن
تو نہیں ہم نہیں کیا یہ تن کیا یہ من

0
269
مرے ہمسفر مرے ہم نوا مرے پاس آمرے پاس آ
تجھے واسطہ مرے پیار کا مرے پاس آ مرے پاس آ
تو برس کبھی کبھی بن گھٹا مجھے پیار سے کبھی دے بھگا
اسی پیار میں تو بھی بھیگ جا مرے پاس آ مرے پاس آ
مرے دل کو ہے ترا آسرا ترے بن نہیں کوئی اہے مرا
تو زمیں مری تو ہی آسماں مرے پاس آ مرے پاس آ

0
60
میری خاطر وہ کیا نہیں کرتے
میرے حق میں دعا نہیں کرتے!
جب اٹھاتے ہیں ہم دعا میں ہاتھ
اکتِفا کی خطا نہیں کرتے
گر خطا ہی خطا کریں گے آپ
جائیے ، ہم گلہ نہیں کرتے

46
نہ میرا ہنر نا سخن بولتا ہے
کہ لہجے میں میرا وطن بولتا ہے
محبت عداوت ہیں حاصل خودی کے
زمانے میں تیرا چلن بولتا ہے
نہیں کوئی جسکا خدا ہے نہ اسکا
فقیر اپنی دھن میں مگن بولتا ہے

0
51
غالب ہی ہے غالب, نہیں کوئی ہے یہاں اور
"کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور"
خواہش وہ ہزاروں، کہ دم اک اک پہ نکلنا
ارمان تو نکلا مگر ارماں تھا وہاں اور
استاد وہ تھا ریختے کا اور کہا یہ
ہے میر کا اندازِ سخن ، لہجہ، زباں اور

0
55
نظر کا تیری جو شامل یہ اضطراب نہ ہوتا
شراب ہوتا پر اِس میں نشے کا باب نہ ہوتا
سہانے پھولوں کی رنگت کبھی حسین نہ ہوتی
ترے لبوں کا گلابی اگر شباب نہ ہوتا
اسیر زلف سے پوچھے تو کوئی قید کی لذت
گرفتِ زلف نہ ہوتا تو کامیاب نہ ہوتا

0
30
بیلا چمیلی جوہی گیندا کنول گلاب
گلشن کی ہر کلی پر چھایا ترا شباب
وہ کہکشا ں ۓ انجم یہ مہرو ماہتاب
کوئی نہیں ہے تیرے اس حسن کا جواب
رمز و خوشی نشاط اور اشکِوں کا اضطراب
نینوں میں تیرے بسنا ہے ان سبھوں کا خواب

0
29
انساں کے دشمنوں کا پیمان کچھ نہیں
جھوٹے فریبیوں کا ایمان کچھ نہیں
حافظ خدا اے لوگوں منصف ہوئے ہیں چور
ظلمت کے اس نگر میں میزان کچھ نہیں
بے شک مٹا دو میری ہستی کو آج تم
میری نظر میں تیری پہچان کچھ نہیں

0
37
ڈر ہے اسکا مجھے زمانے سے
مان جاؤں نہ میں منانے سے
دل یہ پاگل بہل ہی جاتا ہے
گر مناۓ کوئی ٹھکانے سے
تلخیاں زندگی کا سایہ ہیں
اور بڑھتی ہیں جگمگانے سے

0
53
ایسا نہیں کہ پیاس کا صحرا بدل گیا
ساقی تری نگاہ کا لہجہ بدل گیا
پہلے تو پیاس نے ہمیں بے حال کر دیا
پھر پانی اور پیاس کا رشتہ بدل گیا
شدت تھی تشنگی تھی سمندر بھی پاس تھا
میرے نصیب کا ہی ستارہ بدل گیا

0
65
غمگین اس جہاں کا بازار آجکل ہے
گلشن کی ہر کلی کیوں بیزار آجکل ہے
آنکھوں سے زندگی کا پیتا ہوں بھر کے پیالہ
دریا یہ آنکھ کا ہی غم خوار آجکل ہے
ایسا نہیں کہ انکی خواہش نہیں ہے دل میں
دنیا کے غم کا دل یہ بیمار آجکل ہے

0
55
عدل و انصاف کا میزان مجھے کھینچتا ہے
رگوں میں بس رہا ایمان مجھے کھینچتا ہے
کبھی ٹوٹا نہیں پیمان و وفا کا رشتہ
خارو خستہ، دلِ بے جان مجھے کھینچتا ہے
پہلی بارش مِیں مَیں بھیگا تھا یوں لرزاں ہو کر
پہلی بارش کا وہ طوفان مجھے کھینچتا ہے

0
61
دل ہے چھلنی تری نظروں کا نظارہ کرکے
مجھکو اب اور نہ تڑپا یوں اشارہ کرکے
"تو سمجھتا ہے ترا ہجر گوارا کرکے"
بھول جائیں تجھے ہم جاں کا خسارہ کرکے
تجھکو ان ساتھ گزارے حسیں لمحوں کی قسم
چھوڑ کر مجھکو نہ جانا بے سہارا کرکے

0
54
شوق میں زندگی یوں فنا ہو گئی
ابتدا ہی مری انتہا ہو گئی
ہر گھڑی زیست نے یوں ہے رسوا کیا
زندگی تو کوئی بد دعا ہو گئی
خلوت و ہجر سے کیوں نہ گھبراۓ ہم
نالَہءِ دل بھی اب بے صدا ہو گئی

0
57
نہ ٹھہرے ایک بھی لمحے کو پا بہ گِل ہوکے
ہوۓ جو شمس و قَمر ایک ادنیٰ دل ہوکے

0
66
دل کا رنگ نرالا ہے
گورا ہے نا کالا ہے
بھیس بدل کر رہتا ہے
سبکا من مدھو شالا ہے
تم کیوں چپ سے رہتے ہو
کیا پڑا عشق سے پالا ہے

0
50
کوئی نہ آنے والا ہے
دن بھی ڈھلنے والا ہے
رنگ بدلتی دنیا کا
ڈھنگ بدلنے والا ہے
خود میں ہم مصروف ہوۓ
باغ ا جڑ نے والا ہے

0
79
کہ آگ دل میں لگی ہے ایسی
یہ شام بھی اب پگھل رہی ہے
مجھے نہ تم اب یوں آز ماؤ
مری بھی نیت بدل رہی ہیں
نشیلی راتیں حسیں وہ باتیں
پھرآرزوئیں مچل رہی ہے

0
70
عشق میں گر چہ غم ہوگا
روگ یہی مرہم ہوگا
جان پہ جاؤں کھیل، اگر
تو جو مرا ہمدم ہوگا
آنے والا ، جاۓ گا
کوئی نہیں ہر دم ہوگا

0
55
آج نہیں تو کل ہوگا
ہر مشکل کا حل ہوگا
جیون کی اس نَیا میں
ہلچل تو پل پل ہوگا
بادل آنے والا ہے
ہر منظر جل تھل ہوگا

0
1
91
ہمیں سے محبت ہمیں سے خفا ہو ,یہ لازم ہے تمکو کہ تم معجزہ ہو مرے دردِ دل کی انوکھی دوا ہو نشہ ہی نشہ ہو مزہ ہی مزہ ہو نہیں کوئی ایسا ستمگر جہاں میں ستم اور ستم ہی کِئے جا رہا ہو ہے محبوب میرا کچھ ایسی صفت کا جفا بھی کرے تو وفا لگ رہا ہو کہیں آگ بن کے یہ شعلہ نہ بھڑکے کہیں مجھ سے ایسی نہ کوئی خطا ہو اب ان آنسؤں نے بھی یہ کہہ دیا ہے بڑے بے وفا تم بڑے بے وفا ہو

1
68
میری آواز بھی میرے بس میں نہیں
اور قلم بھی مری دسترس میں نہیں
قید کی تھی تمنا کئی برسوں سے
چین کیوں، اب مجھے اس قفس میں نہیں
آرزو ، آرزو ہی ہو کر رہ گئی
دوڑتا ، اب لہو بھی تو نس میں نہیں

0
74
ہمیں سے محبت ہمیں سے خفا ہو
,یہ لازم ہے تمکو کہ تم معجزہ ہو
مرے دردِ دل کی انوکھی دوا ہو
نشہ ہی نشہ ہو مزہ ہی مزہ ہو
نہیں کوئی ایسا ستمگر جہاں میں
ستم اور ستم ہی کِئے جا رہا ہو

0
87
بجھے چراغ میں سحر تلاش کر
شگاف میں، چھپا ہے در تلاش کر
جو ہو گیا سو ہو گیا، تو غم نہ کر
نئی زمیں نیا سفر تلاش کر
دیار شوق میں غضب کی دھوم ہے
میں کھو گیا ہوں بے خبر تلاش کر

0
90
مجھے اب کوئی بھی ڈر نہیں ہوتا
مرا جو اب کہیں گھر نہیں ہوتا
روانی کتنی ہی کیوں نہ ہو ، لیکن
کبھی دریا سمندر نہیں ہوتا
نہ جانے کون ہے ، سسکیاں لیتا
جو اندر ہے ، کیوں باہر نہیں ہوتا

0
73
ہم اپنے درد دل کا ، عنوان ڈھونڈھتے ہیں
اچھا مجھے کرے ، وہ انجان ڈھونڈتے ہیں
دل کی گلی میں آیا کوئی ہے چپکے چپکے
کیسا ہے ،کون ہے، وہ مہمان ، ڈھونڈتے ہیں
اب کے جنوں نے ایسا، کچھ کھیل ہے رچایا
مٹی کی مورتوں میں انسان ڈھونڈتے ہیں

0
120
زندگی میں ہم مشکلوں سے گھبرائیں کیوں
دل ہے تو دھڑکےگا، دھرکنوں سے گھبرائیں کیوں
آنا ہے، تو آۓ، بن کے قَیامَتِ جاں
جانی پہچانی رُتوں سے گھبرائیں کیوں
ہےمقصود ، اگر منزل، تو اے جانِ جاں
راستوں کے ان مرحلوں سے گھبرائیں کیوں

76
سرمئی شام کا اندھیرا ہے
آپکے نام کا اندھیرا ہے
عشق اور جام کا اندھیرا ہے
ہاں بڑے کام کا اندھیرا ہے
اس سفر میں نہیں میں تنہا کبھی
ساتھ انجام کا اندھیرا ہے

0
75
جادو ٹونا جنتر منتر
بان چلے نا کوئی ان پر
کِت رُت جاؤں کا سے کہوں میں
آگ لگی ہے بھیتر بھیتر
نَین مٹکا خوب ہوا ہے
آتے جاتے گلی میں دن بھر

0
94
آہ جب تیرگی کی نکلے گی
روشنی روشنی کو ترسے گی
آدمی آدمی کو تڑ پے گا
کوئی صورت نظر نہ آۓ گی
کیا کرو گے جو دل یہ ٹوٹے گا
جان جاۓ گی جاں نہ نکلے گی

0
87