موتی اشکوں کو بنانا ہے مجھے
قرض سیپِی کا چکانا ہے مجھے
ایک دریا کو ہے شعلوں کی پیاس
آگ پانی میں لگانا ہے مجھے
اک حقیقت کو بیاں کرنے کے بعد
اک کہانی پہ بھی آنا ہے مجھے
روک رستہ نہ مرا دیوانی
بھوک بچوں کا مٹانا ہے مجھے
تُو سمجھتی ہے مرا دل ہے کٹھور
سارے رشتوں کو نبھانا ہے مجھے
زندگی پھول ہو یا کانٹوں بھری
سنگ تیرے ہی بتانا ہے مجھے
دیکھ پگلی تو نہ ہرگز ہو اداس
تیری دنیا ہی بسانا ہے مجھے
بےحس کلیم

0
37