گماں کے اس چراغ نے ہے کھیل وہ حسیں رچا
یقینِ دل کے باغ میں اتھل پتھل ہے مچ گیا
عجب ہی حادثہ ہے یہ نگاہِ دل کے سامنے
کھڑی ہے ایک ساحرہ دل و جگر کو تھامنے
میں نقش کیا بیاں کروں وہ حسنِ بے مثال ہے
سنا رہا ہوں پھر بھی میں جو میرے دل کا حال ہے
مجسمہ ہے یہ کوئی اجنتا کی گپھاؤں کا
یا ہے یہ کوئی پینٹنگ روی کے کلپناؤں کی
لبوں کی مسکراہٹیں اٹھاتی ہیں یوں گھونگھٹیں
یہ حسرتیں ہیں لے رہیں مچل مچل کے کروٹیں
ہیں نین یوں بھرے بھرے کھلے ہوں جیسے میکدے
چھلک کے ان سے مستیاں عجب سی جادوئیں کرے
یہ زلف ہے یا رات ہے بلا کی جس میں بات ہے
قیامتوں کی موج بھی ہیں کھاتی جن سے مات ہے
نہ گل میں ہے وہ تازگی نہ چاند میں وہ دلکشی
کرے ہے آئینہ حیا ہے چہرہ اس قدر حسیں
ادا کہوں حیا کہوں بلا کہوں دعا کہوں
خموشی کو صدا کہوں تو پھر صدا کو کیا کہوں
چلا رہی ہے جادوئیں وہ اپنی ہراداؤں سے
یقیں کا شہر ہے بسا گمان دل کے گاؤں سے
کھِلی ہوئی ہے چاندنی مچل رہی ہے روشنی
سنا رہی ہیں دھڑکنیں ٹھہر ٹھہر کے راگنی
ذرا میں اس سے پوچھ لوں تو کس نگر سے آئی ہے
یہ رنگ اور یہ شوخیاں کہاں سے تو نے پائی ہے
بس اتنی ہی سی بات پر ہوئی ہے وہ چھوی موئی
ابھی ابھی تو تھی یہیں نہ جانے گم کہاں ہوئی
گماں کبھی حقیقیں ہوا بھی کرتی ہیں بھلا
مگر گماں میں ہے چھپا حقیقتوں کا فلسفہ
ہوا جو کرتی ہے نہیں حقیقتوں میں جو کبھی
یہ وہم کی شرارتیں دکھاتی ہیں ہمیں وہی
بےحس کلیم

0
5