کہا، اب آئیے سرکار دکھ ستاۓ گا
پلٹ کے بولے، خبردار! دکھ ستاۓ گا
سنا ہے اس مرضِ عشق کا نہیں کوئی حل
تو کیا ہمیں یوں لگا تار دکھ ستاۓ گا
یہ غم نہیں کہ نہ مل پائی اوروں کی الفت
کریں گے آپ اگر انکار دکھ ستاۓ گا
اب آنکھیں نم ہیں تو کیوں شور کرتے ہو اتنا
کہا تھا آؤ نہ اِس پار دکھ ستائے گا
پلا کے آنکھوں سے وہ بولے اتنا کافی ہے
کیا کچھ اور کا جو اصرار دکھ ستاۓ گا
پھنسی ہے ناؤ تو کیا ہے بسی پہ روئیں ہم
کہ زندگی کی ہے منجدھار دکھ ستائے گا

0
27