کہا، اب آئیے سرکار دکھ ستاۓ گا |
پلٹ کے بولے، خبردار! دکھ ستاۓ گا |
سنا ہے اس مرضِ عشق کا نہیں کوئی حل |
تو کیا ہمیں یوں لگا تار دکھ ستاۓ گا |
یہ غم نہیں کہ نہ مل پائی اوروں کی الفت |
کریں گے آپ اگر انکار دکھ ستاۓ گا |
اب آنکھیں نم ہیں تو کیوں شور کرتے ہو اتنا |
کہا تھا آؤ نہ اِس پار دکھ ستائے گا |
پلا کے آنکھوں سے وہ بولے اتنا کافی ہے |
کیا کچھ اور کا جو اصرار دکھ ستاۓ گا |
پھنسی ہے ناؤ تو کیا ہے بسی پہ روئیں ہم |
کہ زندگی کی ہے منجدھار دکھ ستائے گا |
معلومات