| چھت پہ چاند اور چمن میں وہ گلِ رو نکلے |
| کیسے کیسے ترے دیدار کے پہلو نکلے |
| مری بینائی کو وہ دستِ ہنر دے مولیٰ |
| کھولوں مٹھی تو مرے ہاتھ سے جگنو نکلے |
| نہیں آتا فنِ اظہارِ محبت لیکن |
| جب ترا نام لکھوں لفظوں سے خوشبو نکلے |
| فطرتاً تو نہیں میں ایک ہی غم کا خوگر |
| کیا کروں میں کہ ہر اک سمت تو ہی تو نکلے |
| ناز ہو کیوں نہ مجھے ان کی لگاوٹ پہ بھلا |
| چاند سا حسن ہے اور بول بھی اردو نکلے |
| ہے بنا تکیہ مرے خواب کی شہزادی کا |
| مجھ سے بیمار کے بھی، کام کے بازو نکلے |
| کاغذی پھولوں سے خوشبو تو نہیں آتی مگر |
| شعر ایسے ہیں کہ کاغذ سے بھی خوشبو نکلے |
معلومات