چہرے پہ یوں لگا چہرہ خودنمائی کا
ہے قرض دار پیسہ پیسہ کمائی کا
ٹکڑوں میں بٹ گیا ہوں ہوتے ہی میں بڑا
حصے سے کٹ گیا ہے پر حصہ بھائی کا
یوں مسکراتے ہیں وہ حالات پر مرے
مایوس ہے نظارہ بھی جگ ہنسائی کا
میرے نصیب کے ظلمت کی سیاہی سے
تاریک ہو گیا ہے تارا دہائی کا
بے باکی کو ہماری غیبت نہ جانیے
مقصد نہیں ہمارا کوئی برائی کا
چاہت کا مول کیسا بازارِ حسن میں
مہنگا پڑا ہے سودا یہ دلربائی کا
روشن ہے زندگی یہ یاروں کے دم سے ہی
جلتا رہے دیا یوں ہی ہم نوائی کا
بے حس نہ چھوڑنا تم طوفاں میں کشتی کو
رہنے دے سر میں سودا تو نا خدائی کا

0
68