چہرے پہ یوں لگا چہرہ خودنمائی کا |
ہے قرض دار پیسہ پیسہ کمائی کا |
ٹکڑوں میں بٹ گیا ہوں ہوتے ہی میں بڑا |
حصے سے کٹ گیا ہے پر حصہ بھائی کا |
یوں مسکراتے ہیں وہ حالات پر مرے |
مایوس ہے نظارہ بھی جگ ہنسائی کا |
میرے نصیب کے ظلمت کی سیاہی سے |
تاریک ہو گیا ہے تارا دہائی کا |
بے باکی کو ہماری غیبت نہ جانیے |
مقصد نہیں ہمارا کوئی برائی کا |
چاہت کا مول کیسا بازارِ حسن میں |
مہنگا پڑا ہے سودا یہ دلربائی کا |
روشن ہے زندگی یہ یاروں کے دم سے ہی |
جلتا رہے دیا یوں ہی ہم نوائی کا |
بے حس نہ چھوڑنا تم طوفاں میں کشتی کو |
رہنے دے سر میں سودا تو نا خدائی کا |
معلومات