| نہ رہ سکا کسی جب کا یہاں کسی پہ گھمنڈ |
| تو کیوں ہے تجھکو اک ادنیٰ سی زندگی پہ گھمنڈ |
| ملے ہیں خاک میں نمرود کتنے کہہ دو اسے |
| جسے جسے ہے یہاں اپنی افسری پہ گھمنڈ |
| لگے گی پیاس تو آئیں گے میری ہی جانب |
| ہے جن کو آج سمندر کی دوستی پہ گھمنڈ |
| جفا کی ہوتی نہ ہمت اے زندگی تیری |
| اگر جو ہوتا ہمیں بھی یہاں کسی پہ گھمنڈ |
| بس اک جھلک سے ہی اسکے تو ہار جاۓ گا |
| اے چاند اتنا نہ کر اپنی دلکشی پہ گھنڈ |
معلومات