| چشمِ بےزار میں کیا کیا نہیں منظر آیا |
| کبھی صحرا کبھی طوفاں کبھی ساغر آیا |
| پہلے پہلے تو کیا غرق مجھی میں مجھکو |
| بن کے سیلاب پھر آنکھوں سے وہ باہر آیا |
| دل کھلونا ہے وہاں ٹوٹ ہی جا نا ہے اسے |
| میرے دل تو بھی کہاں دل کو لگا کر آیا |
| ڈوبنے سے جسے لگتا ہی نہیں ڈر تھا کبھی |
| خوف میں ہے وہی دریا جو سمندر آیا |
| نہ سمجھنا کہ کوئی در نہ کھلا میرے لۓ |
| چھوڑ کر دنیا میں ساری ترے در پر آیا |
| وحشتوں سے مری کیوں اب ہے پریشاں دنیا |
| ہم نے دیکھا جو بھی باہر وہی اندر آیا |
| خالی ہاتھ آۓ سبھی اور وہ خالی ہی چلے |
| نہ لیا کچھ بھی کسی سے نہ ہی دے کر آیا |
| کوئی فرعون یہاں ہے تو کوئی ہوگا ولی |
| پر کوئی بھی نہ ترے ذرہ برابر آیا |
معلومات